خورشید ندیم صاحب کا مارشل لا کے جواز میں کالم پڑھ کر مجھے خورشید ندیم صاحب کے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی یاد آگئے جنھوں نے 1993ء میں پاکستان اسلامک فرنٹ (ظالمو، قاضی آرہا ہے) سے امیدیں باندھ کر اپنے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر فاروق خان شہید کو بھی انتخابات میں فرنٹ کی جانب سے شریک کیا اور اسی زمانے میں “منشورِ انقلاب” لکھ کر اپنے فاضل شاگرد معز امجد سے اس کی شرح بھی لکھوائی، پھر 1996ء میں پاکستان تحریکِ انصاف کے قیام کے ساتھ ڈاکٹر فاروق شہید کو عمران خان کے ساتھ کردیا لیکن جب یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، تو پھر ڈاکٹر فاروق خان شہید نے غامدی صاحب کو قوم پرست حلقوں میں متعارف کرانا شروع کیا اور پشاور میں حاجی غلام احمد بلور وغیرہ سے ملاقاتیں کروائیں۔ شاید ان کو سینیٹ کا ٹکٹ بھی مل جاتا لیکن جنرل مشرف نے ٹیک اوور کرکے اس خواب کو بھی چکنا چور کردیا۔ تب غامدی صاحب کے ساتھی ہمیں بتاتے تھے کہ جنرل مشرف کے ٹیک اوور کی رات غامدی صاحب اتنے پریشان تھے کہ انھوں نے کہا کہ اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا، ہر وقت بس فوج ہی فوج، یہاں جمہوریت نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ خیر کچھ ہی عرصے بعد نائن الیون ہوگیا اور غامدی صاحب اسٹیبلشمنٹ کے شیخ الاسلام بن گئے، پھر وہ (اور خورشید ندیم صاحب بھی) اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بنے، جمہوریت گئی بھاڑ میں، اور راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ خیر بعد میں غامدی صاحب مشرف بہ امریکا ہوگئے اور مشرف کا اقتدار بھی ختم ہوگیا، تو اس کے کچھ عرصے بعد پھر غامدی صاحب کا کلپ سامنے آیا جس میں وہ بندوقوں والوں کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں نثری شاعری کررہے تھے۔ یہ دو عشروں کا سفر خورشید ندیم صاحب کے اس کالم نے یاد دلایا!
محمد مشتاق