سردیوں کی طویل راتوں میں نہ معلوم کے بجے والدہ کو جگاتا کہ مجھے باہر (اوپن ائر واش روم) جانا ہے. آزاد کشمیر کے کلچر کے مطابق گاؤں میں اکیلا بڑا سا مکان تھا. بجلی ہوتی تھی نہ مکانوں کے اندر واش روم. وہ لیٹے لیٹے کہتیں ،جاؤ، میں سامنے ہوں، میں، ایک بچہ برآمدہ اور طویل صحن عبور کر کے گھر سے باہر نکل جاتا، پیچھے سے وقفے وقفے سے آواز آتی رہتی، ڈرنا نہیں، میں سامنے ہوں. میں کبھی بھی نہیں ڈرا اور اس اطمینان سے واپس اپنے بستر پر آ جاتا کہ والدہ سامنے ہیں.
ہم اپنے شب و روز پر نگاہ ڈالیں تو جس شے نے ہماری پوری زندگی کو ڈھانپ رکھا ہے وہ ہے ___خوف ___بیماری کا خوف، موت کا خوف، غربت کا خوف، بے روزگاری کا خوف، کسی عزیز کی جدائی کا خوف، ناکامی کا خوف، باس کی ناراضی کا خوف، بیوی کی ڈانٹ کا خوف. ہر فرد کے خوفوں کی اپنی فہرست ہوتی ہے اور ان میں وہ ڈوبتا اور تیرتا رہتا ہے.
جب ہم الوہی ہدایت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جب آدم و حوا کو زمین پر اتارا تو پہلے مرحلے پر ہی بتا دیا کہ تمہاری ساری زندگی کی ساری بے چینیوں کا خلاصہ دو ہی چیزیں ہیں :غم، جو ماضی کی ناخوش گواریوں سے وابستہ ہوتا ہے اور خوف جو مستقبل کے حوالے سے سایہ فگن رہتا ہے. ان دونوں سے نجات کے لئے میں تجھے ایک نسخہ کیمیا دے رہا ہوں، جس کی وقتا فوقتاً تجدید کرتا رہوں گا اور
اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
آج ہم ان دو انسانی مسائل میں سے صرف خوف پر بات کریں گے. خوف سے کیسے نجات حاصل کریں.
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے اللہ نے انسانوں کے نفع کے لیے پیدا کی ہے، گویا کائنات ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری خادم ہے اور جو اس کا مالک اور تخلیق کار ہے وہ بے پناہ رحیم اور ودود (ٹوٹ کر محبت کرنے والا) ہے. ولی ہے یعنی دوستی کے رنگ میں سرپرستی کرنے والا ہے لیکن کائنات کی ہر شے ایک امر یعنی فارمولے کے تحت کام کرتی ہے. اگر ہم اس فارمولے سے ہٹ کر کام کرنا چاہیں گے تو نتائج کبھی تسلی بخش نہیں ہونگے جیسے گاڑی کو دھکے سے بھی کچھ دور تک لے جایا جا سکتا ہے لیکن فارمولا یہ ہے کہ گاڑی ایندھن اور انجن کے زریعے چلے گی. اگر ہم اس فارمولے پر گاڑی چلائیں گے تو انتہائی آسانی سے تیز رفتاری سے تھوڑے وقت میں ہزاروں میل فاصلہ طے کر لیں گے لیکن دھکے سے؟؟؟؟ اس مثال سے واضح ہوا کہ ہمیں اپنے آپ کو کائنات سے ہم آھنگ کرنا ہوتا ہے اور ہم اس کائنات میں پھیلے ہوئے تمام تر سامان راحت و ارتقاء سے مستفید ہو سکتے ہیں. یعنی خود کو خدائی سکیم سے ہم آھنگ کر لیا جائے.
اگر آپ نے انگلش لٹریچر پڑھا ہے تو آپ کی نظر سے لارڈ بائرن کی مشہور غزل She walks in beauty گزری ہوگی ورنہ اختر شیرانی کو پڑھ لیں آپ حسن جہاں تاب کی معیت میں اپنے آپ کو ہواؤں اور فضاؤں میں اڑتا محسوس کریں گے. قرآن میں حسن حقیقی آپ کو یہی بتاتا ہے کہ
وھو معکم اینما کنتم
یعنی آپ وقت کے جن لمحات اور مکان کی جن لہروں سے گزر رہے ہیں یہ اسی حسن عالم تاب کا پرتو ہے آپ اس کے ساتھ بلکہ اس کے اندر چل پھر رہے ہیں کہ
کان اللہ بکل شئ محیطا
پھر جب دور اندر کے کمرے سے آنے والی ماں کی آواز ایک بچے کو کھلے آسمان تلے اطمینان کی چھتری مہیا کرتی ہے تو قدیر و حفیظ ذات کی ہمہ وقتی معیت کے بعد آپ کے خوف زدہ رہنے کی گنجائش ہی کب رہتی ہے. یہی نہیں کہ آپ کو ضرورت ہو اور آپ کو اسے تلاش کرنا پڑے یا بلانا پڑے وہ آپ کی ذات سے بھی زیادہ آپ کے قریب ہے
نحن أقرب الیہ من حبل الوريد
بات اس سے کریں، دوستی اسی سے رکھیں اور غم اور خوف سے نجات حاصل کر لیں
جب وہ یہ کہتا ہے کہ فلا تخافوھم و خافون (دوسروں سے نہیں بلکہ مجھ سے ڈرو) تو اس خوف کا مطلب الگ سے ہے اسے یوں سمجھیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے خوف سے ایک دوسرے سے بے وفائی نہیں کرتے، اس خوف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس کی وجہ سے میں محبوب کی نظروں سے گر جاؤں اور محبت سے محروم ہو جاؤں.(
طفیل ہاشمی)