.
تبلیغ کے کام میں وقت لگانا شروع کیا تو ابھی میں ایف ایس سی میں تھا کہ سر پہ پگڑی باندھنے کا شوق چرایا اور اِس کے لیے فضائل و دلائل کے انبار لگانا شروع کر دیے۔ اُس وقت میری عمر سولہ سترہ سال تھی۔ ابا جان ایک دن مجھے مولانا محمد احمد انصاری صاحب کے پاس لے گئے۔ مولانا نے فرمایا کہ تبلیغ کے کام میں پہلا مطالبہ اندر کی دنیا بدلنے کا ہے نہ کہ چھہ نمبر کی تقریر یاد کرنے کا یا صوفیانہ حلیہ بنانے کا۔ اپنا احتساب کرنے کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ میں زبان سے چھہ نمبر کی قوالی کر رہا ہوں یا چھہ نمبر میرے ہاتھوں سے، میرے کانوں سے، میرے پاؤوں سے، میری آنکھوں سے، میری سوچ سے، نظر آ رہے ہیں۔ تبلیغ کسی حلیے کا نام نہیں ہے کہ فلاں رنگ یا بناوٹ کی ٹوپی پہن لی یا فلاں رنگ یا سائز کا عمامہ باندھ لیا۔ حضور علیہ السلام کے دور میں ابوجہل اور ابولہب بھی وہی لباس پہنتے تھے جو نبی کریم اور صحابہ پہنتے تھے، اور سب مشرکین اور منافقین کی بھی ویسی ہی ڈاڑھی ہوتی تھی جیسی صحابہ کی تھی۔ اِن لوگوں میں فرق اندر کی دنیا کا تھا۔ اپنے دل میں وہ جذبہ پیدا کرو جو نبی کریم اور صحابہ کے دلوں کا تھا۔ ورنہ یاد رکھو کہ منافقین سارے اعمال بھی وہی کرتے تھے جو نبی کریم اور صحابہ کرتے تھے۔ منافقین مسجدِ نبوی میں نبی کریم کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے اور صحابہ کے ساتھ جہاد میں شامل ہوکر جان تک قربان کرتے تھے۔ منافقین اور صحابہ کے حلیے اور عمل میں فرق نہیں تھا بلکہ صرف دلوں کے جذبے میں فرق تھا، اور یہی فرق جنت اور جہنم کا فیصلہ کرانے والا ہے۔ اپنے حلیے کو بدلنے سے زیادہ توجہ اپنے دل کے جذبے کو بدلنے پر دو۔
حافظ صفوان