دینی مدارس کی خدمات

برصغیر میں دینی مدارس ایسی این جی اوز ہیں جن کی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی

بالعموم سماج کے پس ماندہ طبقے سے بچے لئیے جاتے ہیں اور ان کی رہائش، خوراک، علاج اور تعلیم کی تمام تر ضروریات تقریباً آٹھ دس سال تک پوری کر کے واپس اسی سماج میں بھیج دئیے جاتے ہیں. بظاہر یہ بہت بڑی خدمت ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی جڑ گئی ہیں. اگر مدارس ان قباحتوں کو کم کرنے یا دور کرنے کی طرف توجہ دیں تو بلاشبہ قومی زندگی میں ایک مثبت پیش رفت ہو گی.

پہلی بات یہ ہے کہ مدارس جن والدین کے بچوں کی کفالت اپنے ذمے لے لیتے ہیں وہ بچوں کے ہر قسم کے اخراجات سے لاپرواہ ہو کر اپنی تمام توجہ مزید بچے پیدا کرنے پر مبذول کر دیتے ہیں. ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے یہ پریشانی نہیں ہوتی کہ ہم اپنے وسائل کے اندر کتنے بچوں کو پال پوس کر تعلیم دلا سکیں گے. ہم نے پیدا کر کے مدرسہ سپرد کر دینا ہے اور پھر ہمیں جوان ہو کر واپس مل جائے گا. اس صورت حال کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں اوپر نیچے کی تین تین نسلیں مسلسل بارآور رہتی ہیں. ملک کی آبادی غیر فطری تیزی سے بڑھتی ہے اور آبادی کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے.

دینی تعلیم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے دوران کوئی کام نہیں سکھایا جاتا. جو فارغ ہونے کے بعد ان فضلاء کے لیے باعزت اور آسودہ روزگار کا ذریعہ بنے. اس کے برعکس سفید پوش، نازک مزاج افراد کی اتنی بڑی تعداد ہر سال ایک ایسے سماج میں پھینک دی جاتی ہے جہاں باعزت رزق کا حصول محنت طلب ہےاور انہیں نہ کوئی کام آتا ہے اور نہ محنت کی عادت ہے . مساجد اور مدارس کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے نہ بنانی ممکن ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد کو روزگار دے سکے.

دوسری طرف ایسے مدارس کی تعداد بہت کم ہے جو وسائل سے ابل رہے ہیں اور ان کے وسائل بھی وراثت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جبکہ مدارس کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ ان کے منتظمین ساری زندگی چندہ جمع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور تعلیمی نظام کی بہتری کے بارے میں سوچنے کا وقت ہوتا ہے نہ فرصت نہ حالات.

اس صورت حال کے پیش نظر مدارس کے لئے میرا مشورہ ہے کہ وہ طلبہ کے لیے فیس مقرر کریں. بھلے فیس میں ممکنہ طور پر رعایت دیں لیکن تعلیمی اخراجات کا کچھ بوجھ ان والدین پر بھی ڈالیں جو بچے مدرسہ میں جمع کروا کر ذمہ داری سے سبک دوش اور دین کے لیے وقف کر دینے کی نیکی سے سرشار ہوتے ہیں.اس فیس کے ذریعے ہر ادارہ اپنے طلبہ کو کوئی کام سکھائے تاکہ بعد میں وہ اپنی دنیوی مہارت سے روزی کمائیں نہ کہ دین فروشی سے. مجھے حیرت ہے کہ جو منتظمین مدارس اپنی گفتگو کے ہر جملے میں اپنے اسلاف کا دو تین مرتبہ حوالہ دینا فرض سمجھتے ہیں انہوں نے بھی اپنے اسلاف کی اس تاکید کو کہ مدارس کے بچوں کو کوئی ہنر لازما سکھایا جائے عملی طور پر اپنے پائے استحقار سے ٹھکرائے رکھا.

طفیل ہاشمی