میرے خاندان میں والد صاحب سمیت ننھیال اور ددھیال کے کئی افراد دارالعلوم دیوبند اور پاکستان بننے کے بعد یہاں کے دیوبندی مدارس کے فضلاء تھے. خود میں نے بھی جامعہ اشرفیہ لاہور سے 1966 میں دورہ حدیث کیا. مجھے لازما دیوبندی ہونا چاہیے تھا لیکن قیام لاہور( 1966_1975)کے دوران مولانا مودودی، ابو الکلام، شورش کاشمیری کو بالاستیعاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ دیگر سینکڑوں کتب پڑھ ڈالیں. علماء دیوبند کا تمام لٹریچر دینی مدارس میں تعلیم کے دوران پڑھ چکا تھا. قیام لاہور کے دوران پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ تحریکات میں حصہ لینے، جیل یاترا، وغیرہ تجربات سے بھی گزرا. مولانا عبیداللہ سندھی کی شخصیت سے مناسبت زیادہ ہوتی چلی گئی تاہم دیوبندیت دل و دماغ کے کسی نہ کسی گوشے میں ہری رہتی. اللہ بھلا کرے دیوبندیوں کا کہ انہوں نے خود، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمود حسن کی راہ چھوڑ دی اور ہمارے لئیے دیوبندیت کے ماحول سے خلاصی آسان ہو گئی. یونیورسٹی ایجوکیشن کے نتیجے میں تحقیق کی لت پڑ گئی. کچھ سالوں تک حنفیت اور احادیث کا اختلاف کھلتا رہا اور حنفیت بھی ہاتھ سے کھسک گئی. چند سال بعد سعودی عرب میں سلفیت کو قریب سے دیکھنے، دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنے، فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورس کنسلٹنٹ رہنے کے باعث حنفیت کو اس کے اصل مآخذ سے پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ متمدن دنیا میں صرف حنفی منھج اجتہاد ہی (حنفی فقہی جزئیات نہیں) چل سکتا ہےاور میرے خیال میں حنفی ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عقل، رائے اور reasoning کے سانچے میں پیش کیا جائے، تاہم اللہ نے یہ کرم کیا کہ پچھلے بہت سالوں سے اب صرف کتاب اللہ اور سیرت رسول اکرم (سنت نبوی) جو دراصل ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں میرے ذہنی سفر کا منتہائے کمال ہیں اور وجہ اطمینان بھی. اس سفر کے نتیجے میں انسان داخلی طور پر بہت مطمئن ہو جاتا ہے لیکن اپنے ماحول میں مکمل اجنبی. کوئی فرقہ، جماعت، گروہ اور عصبیت ایسے فرد کو قبول کرتے ہیں نہ تعاون مل سکتا ہے.
اگرچہ میں نے مولانا مناظر احسن گیلانی کو بہت محبت سے بالاستیعاب پڑھا، النبی الخاتم سے آغاز کیا اور شاید ہی ان کی کوئی مطبوع تحریر ایسی ہو جس سے میں نے استفادہ نہ کیا ہو. ان کی شخصیت کا میری ذہنی تشکیل میں شاید سب سے زیادہ اثر ہے البتہ مولانا سندھی کے بارے میں میں ان کی رائے سے متاثر نہیں ہوا نیز ساری زندگی جامعات میں تحقیق نگاری سے وابستہ رہنے کی وجہ سے تنقید کی عادت بد کا ہمیشہ شکار رہا. جبکہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے غزالی پر بہت علمی اور تاریخی حوالوں سے تنقید کی لیکن اس انداز سے جیسے ان کی دست بوسی کر رہے ہوں.
دوسرے مولانا مودودی ہیں جنہیں میں نے مکمل طور پر پڑھا اور درس نظامی کے اس پس منظر کے باوجود جو مولانا کو اسلامی سماج میں موجود کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھا، ان کی مجالس سے براہ راست مستفید ہوا البتہ مولانا سندھی کے اثرات جو ترقی پسند سماج کی طرف ترجیح لئے ہوئے تھے یہاں بھی غالب رہے.
حنفیت کو اس کے اصل مآخذ سے پڑھنے اور سمجھنے کے باوجود اور اس اعتراف کے باوجود کہ مستقبل کے اسلامی قانون کی اساس یہی منھج اجتہاد ہوگا
میں کبھی بھی حنفیہ کے مسئلہ تحلیل، طلاق ثلاثہ، جواز حیل اور حنفیت جدیدہ سے اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر سکا.
اس پیرانہ سالی میں ایک طرف شدید تنہائی کا احساس ہوتا ہے لیکن ہمارے سماج میں اپنی رائے رکھنے اور بیان کرنے والا ہر شخص تنہا رہ جاتا ہے البتہ یہ اطمینان بھی ہے کہ میں نے اپنی دانست میں جو حق سمجھا اس پر کمپرومائز نہیں کیا.
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے تھا.
پس نوشت،،،
تنہائی سے مراد فکری تنہائی ہے ورنہ اللہ کے فضل سے میں بہت آسودہ حال ہوں خوبصورت اور مکمل خاندان ہے. دنیا کی ہر نعمت میسر ہے. اسلام آباد میں ذاتی گھر ہے، اعلی قسم کی سواری ہے. اولاد اعلی تعلیم یافتہ ہے. پوتے نواسے سب مزے میں ہیں.. دراصل میں جن اہداف کے حصول کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتا رہا ہوں ان سے نئی نسل کو دور ہوتے دیکھتا ہوں تو درد جاگ اٹھتا ہے ورنہ میرے ساتھ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ میں مستحق ترحم ہوں.
طفیل ہاشمی