ساٹھ کی دہائی تک اکثر مسلمان بڑے امیرِ شام کو ٹھیک سے جانتے بھی نہیں تھے۔ کتابوں میں ان کا ذکر کہیں ہوتا بھی تو صحابی یا خلیفہ کے نہیں، بلکہ پہلے مسلمان بادشاہ کے طور پر ہوتا۔ حالات یہ تھے کہ علامہ اقبال اور نسیم حجازی نے طارق بن زیاد اور عبدالرحمان الداخل سے سنجر و سلیم تک، محمود غزنوی سے اورنگزیب عالم گیر تک کوئی قابلِ ذکر مسلمان بادشاہ نہیں چھوڑا جس کی مدح سرائی نا کی ہو لیکن امیرِ شام کو ایسے اگنور مارا جیسے عقلمند لوگ اپنی زندگی میں toxic لوگوں کو اگنور کرتے ہیں۔ اقبال نے اگر کہیں کنایوں میں موصوف کی طرف اشارہ کیا بھی تو منفی طور پر لیکن نام لیے بغیر۔ الغرض “حضرت خال المومنین” کا اسلامی تہذیب کی کہانی میں وہی معاملہ تھا جو ہیری پوٹر میں ان محترم کا ہے جن کا نام نہیں لیا جاتا۔ یہ تھا ہمارا سکوت اور کف لسان۔
پھر کیا ہوا؟ پھر مسلمان ملک “آزاد” ہونا شروع ہوئے۔ امید تو یہ تھی کہ اب مسلمان مل جل کر اسلامی جمہوری انداز میں آزاد حکومتیں بنائیں گے لیکن نہیں۔ سامراج کی باقیات نے ہر جگہہ اپنے امریکی یا روسی آقاؤں کی پشت پناہی آمریتیں قائم کرلیں ۔۔۔ کہیں بادشاہ کی آمریت، کہیں اشرافیہ کی آمریت، کہیں فوج کی آمریت اور کہیں قوم پرست سرخوں کی آمریت۔ ایک طرف عرب قوم پرستی کا غلغلہ اٹھا تو دوسری طرف جناح اور اقبال کے اسلامی جمہوری تصورات کے متبادل کے طور پر ایوب خان کی مسلم نیشنلزم اور مسلم ماڈرنزم کا علم اٹھا جس پر اتاترک اور رضا شاہ کی آمریت کا رنگ تھا۔
ان ناجائز پوسٹ کولونیل بیانیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کے اپنے تصورِ تاریخ کو بدلا جائے جو انہیں آزادی، انصاف اور روحانی جمہوریت مانگنے پر اکساتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ہسٹوریکل ریویژن ازم وہاں سے شروع کی جائے جہاں سے مسلمانوں میں ایمپرئیل ازم، نسلی و قومی امتیاز اور ڈکٹیر شپ شروع ہوئی تھی اور یہ سب چیزیں شروع کرنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔
پس، محمود احمد عباسی کی “خلافتِ معاویہ و یزید” منظر عام پر آئی اور پیٹرو ڈالرز سے اٹھ رہی مذہبی تحریکیں اس کتاب کے بیانیے کی علم بردار بن گئیں ۔۔۔ وہ بیانیہ کہ جس کی اسلامی تاریخ میں عباسی انقلاب سے اب تک کوئی نظیر نا تھی۔ بزرگوں نے جس فتنے کو سکوت اور کفِ لسان کا پانی ڈال کر بجھا رکھا تھا، اسے ناصبیتِ جدیدہ کا درآمد شدہ پیٹرول ڈال کر دوبارہ جلا دیا گیا۔ آتش کدہِ کسریِٰ دمشق پھر بھڑک اٹھا۔
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ سیاسیاتِ اسلامیہ کو مسخ کرنے کی کوشش ہوئی تو جواب میں سیاسیاتِ اسلامیہ کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودیؒ نے بھی “خلافت و ملوکیت” لکھی۔ خلافت و ملوکیت میں جو گنجائش رہ گئی وہ جسٹس غلام علی کی “َخلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ” نے پوری کردی۔ اہلسنت سرخرو ہوئے۔ الحمدللہ۔
پھر ایران کا انقلاب آیا۔ عرب بادشاہتیں اور آمریتیں ایک بار پھر گھبرائیں۔ تجوریوں کے منہ پھر کھلے۔ ہزار سال سے مل جل کر رہنے والے سنیّ شیعہ کو لڑوایا گیا اور اس لڑائی میں تسنن اور تشیع، دونوں کے حقیقی عقائد گم ہونے لگے۔
یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کسی پر ناصبی کا لیبل لگاتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہئیے۔ اہلسنت میں جو لوگ غلط باتیں کررہے ہیں، ان میں سے اکثر کے دلوں میں مولا علی یا اہلبیت کا بغض نہیں ہے، صرف شیعوں کی ضد ہے، غصہ ہے، گروہی تعصب ہے۔ لیکن یہ تعصب، یہ غصہ، یہ ضد بھی نفسیاتی کمزوری کی علامت ہے۔ اس سے بھی نجات ضروری ہے۔ ہمارے لیے ہمارے مسلک کا گروہ نہیں، ہمارے مسلک کے اصول زیادہ ضروری ہونے چاہئیں۔ بھلا کبھی اکثریت اور مرکزی دھارے نے بھی عددی اقلیت کے عقائد کی ضد میں اپنے عقائد متعین کیے ہیں؟
احمد الیاس