میں نے ایک شعر پوسٹ کیا۔
گنبد و منبر و مینار و چراغ و محراب
سب کے سب مالِ خدیجہ سے بنائے گئے ہیں
اس شعر کو اگر صرف عقیدے کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ابلاغ کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اس شعر کو تاریخ کے تناظر اور معروضی صورتِ حال میں دیکھیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شادی کے وقت جنابِ خدیجہ سلام اللہ علیہا، ملیکتہ العرب کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ تاریخ کے مطابق خطۂ عرب کے طول و عرض میں انکی تجارت قائم تھی اور مالِ تجارت ہزارہا اونٹوں پر آیا جایا کرتا تھا۔ اعلانِ رسالت کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی وہی تھیں۔ اسلام کی تبلیغ ایک تحریک تھی جو سماجی بھی تھی اور سیاسی بھی، ہر تحریک کے لیے سرمایے کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور فالوورز کی بھی۔ پہلا سرمایہ بھی جنابِ خدیجہ نے فراہم کیا اور پہلی فالوور بھی وہی ٹھہریں۔ جب تحریک جڑ پکڑ گئی تو دیگر نے بھی حسبِ توفیق حصہ لیا۔ لیکن بنیادی اور اکثریتی شئیر ہولڈر اور فنانسر تو جنابِ خدیجہ ہی کہلائیں گی۔ اسی طرح جیسے مسجدِ نبوی کی بنیاد رسولِ اکرم ص نے کچی اینٹوں کے ساتھ رکھی۔ بعد میں عالیشان گنبد، مینار اور غالیچے بھی بچھ گیے مگر وہ کہلائے گی تو مسجدِ نبوی ہی، اسی طرح اسلام کی عمارت میں چاہے جتنی بھی مینا کاری ہوتی رہی ہو، تختی جنابِ خدیجہ س کے نام کی ہی لگے گی۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس عمارت کی بنیاد میں لوہا جنابِ خدیجہ کے مال کا لگا اور اس کی ترائی جنابِ خدیجہ س کی اولاد کے خون سے ہوئی۔
عارف امام