اٹھارہ سو ستاون کے بعد جب دیوبند میں جدید دینی مدرسے کی تشکیل ابھی ابتدائی مراحل میں تھی تو سرسید احمد خان نے اس کے مستقبل کے حوالے سے تین اہم خدشات پیش کیے تھے۔ ایک یہ کہ یہ مدرسہ علم جدید کے سوالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پائے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے پیدا ہونے والا طبقہ اپنی معاش کے لیے معاشرے پر ایک مستقل اور دن بدن بڑھتا ہوا بوجھ بنتا چلا جائے گا۔ اور تیسرا یہ کہ بلند کرداری کا وہ معیار جس کی توقع دین کے علمی وروحانی نمائندوں سے کی جاتی ہے، اس نظام میں مجموعی طور پر اسے برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
اس تیسرے نکتے میں آج ہم ڈیڑھ سو سال کے بعد بآسانی اس شق کا اضافہ کر سکتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں ایک طبقے کو ’’مذہبی علماء’’ کی شناخت دے کر معاشرے میں متعارف کروانا، جبکہ ان میں سے اکثریت دینی اخلاق وکردار کے اعتبار سے اس معیار پر پورا نہیں اترتی، بالآخر اس طبقے اور مدارس کے پورے نظام کے وقار اور وقعت کو برباد کر دینے پر منتج ہوگا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
عمار خان ناصر