ابو رجب الحنبلی
اکبر بادشاہ نے ’دینِ الٰہی‘ نام سے کوئی نیا مذہب ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسے ایک روش یعنی طریقہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بدایونی کی گھڑنت ہے کہ اکبر نے “دینِ الہی” نام کا نیا دین ایجاد کیا تھا۔ بدایونی نے بہت مبالغہ کیا ہے الزامات اور جھوٹ میں۔۔
شیخ محمد اکرام کی کتاب ’رودِ کوثر‘ کے اندراجات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نے ’دینِ الٰہی‘ نام سے کوئی نیا مذہب ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسے ایک روش یعنی طریقہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہماری نظر سے بدایونی کی کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں اس نے دینِ الٰہی کو اکبر یا ابوالفضل سے منسوب کیا ہو ، زیادہ سے زیادہ اس نے یہ کہا ہے: «وروش خود را به توحید الهی موسوم ساختند» (اپنی روش کو توحید الٰہی سے موسوم کیا)۔
انھوں نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ اکبری احکام کے لیے ’دینِ الٰہی‘ کی ترکیب شاید پہلی مرتبہ ’دبستانِ مذاہب‘ میں اکبر کی وفات کے کوئی ساٹھ ستّر سال بعد استعمال ہوئی۔ غلام حسین طباطبائی مؤلف سیر المتاخرین نے بھی بعد میں ’مذہب الٰہی‘ کی ترکیب بے تعصبی اور طریقۂ ’صلح کل‘ کے معنوں میں استعمال کی۔ اس کے بعد شیخ اکرام نے اس بنیادی غلطی کی عقدہ کشائی کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے طریقہ اور روش کے بجائے ’دینِ الٰہی‘ کا نام دے کر عوام میں مشہور کردیا۔
دین الٰہی کی اصطلاح بھی نہیں ملتی اس دور کی کسی تاریخ میں۔
اکبر نے جو طریقہ اپنایا اسی کو دین الٰہی کہہ ڈالا ظالموں نے۔۔۔ وہ مغلیہ روش سے ہٹ کر احکام بنانا چاہتا تھا۔۔
بہر حال یہ بڑا جھوٹ ہے
مغلیہ سلطنت کو بدنام کرنے کا
تاکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کو اس کا اعتماد نہ مل سکے
بالآخر یہ سازش کامیاب ہوئی۔
ابو الفضل اور بدایونی دونوں کی تاریخ کا موازنہ کریں تو سمجھ آتا ہے۔۔۔
اکبر نامہ کی ایک اور دل چسپ دستاویز اکبر کا وہ خط ہے جو اس نے اپنے خیالات کی توضیح میں ابو الفضل سے لکھوا کر عبد اللہ خان ازبک والئ ترکستان کو اگست 1586م میں ارسال کیا، عبد اللہ خان نے اکبر کو ایک خط لکھا تھا کہ آپ کی نسبت پیغمبری بلکہ خدائی کے دعوے سننے میں آتے ہیں، اکبر نے جواب میں ایک طویل خط ارسال کردیا جس کے دو مختلف مسودے اکبرنامہ اور انشائے ابو الفضل میں ہیں۔ اس خط میں بعض علمائے دربار کی شکایت کی ہے کہ وہ نہ صرف عقل و خرد سے خالی تھے ، بلکہ کلام مجید کی غلط ترجمانی کرتے تھے اور اس کی بنا پر شاہی اختیارات میں شرکت چاہتے تھے
( و فرمان آسمانی ونامه جاودانی راکه فرستادۂ خدا ورسانیده پیغمبر است از شاه راه گردانیده برنگ دیگروامی نماینده ومجملات نصوص را تاویلات و تسویلات نموده می خواهند در فرماں روائی و کارگزاری شریک بادشاهی باشند ) جب ان باتوں کی تحقیق اور اختلافی امور کی تفتیش کے دوران ظاہر بینوں کا پول کھلا اور وہ پایۂ اعتبار سے گرگئے تو انھوں نے حسد اور عداوت سے غلط افواہیں پھیلانی شروع کیں اور ہماری نسبت نبوت کے دعوے منسوب کیے۔ ورنہ کہاں بندۂ عاجز اور کہاں یہ دعوی۔۔
اکبر نمازی تھا ۔۔ یہاں تک اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ کا نام وضو کئے بغیر لینا مناسب نہیں سمجھتا تھا۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کی چوتھی جلد میں اکبر کے حالاتِ زندگی اور مجدد الف ثانی کے حیات اور کارناموں پر سیرحاصل بحث کی ہے ۔ انھوں نے اکبر کے رویّہ پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے اور اس کے کردار و افعال کواسلام کے منافی ٹھہرایا ہے اور اس سے اسلام کے وقار کو مجروح قرار دیا ہے ، مگر اس بحث میں مولانا نے بڑا معتدل رویہ اپنا یا ہے۔ انھوں نے کسی جگہ یہ نہیں تحریر کیا ہے کہ اکبر نے دین الٰہی کے نام سے کوئی نیا مذہب ایجاد کیا تھا۔ بلکہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسے مولانا نے تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ لوگ اکبر سے دین الٰہی منسوب کریں۔ در اصل اکبر ایک سچے مذہب کا ماننے والا تھا جس کے دل میں صداقت اور حق کی آگ لگی ہوئی تھی، مگر وہ امرِ حق کی تلاش و جستجو میں گم راہی کے دہانے پر پہنچ گیا ، اس میں اس کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ علمائے دربار کا تھا۔
اکبر بادشاہ نے کوئی نیا مذہب نہیں، بلکہ ایک طریقہ اختیار کیا تھا جسے بالخصوص مسلمانوں میں کچھ لوگوں نے طمع و حرص میں قبول کیا، مگر وہ اندر سے اس سے خوش نہ تھے اور نہ انھوں نے اس پر عمل کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض لوگوں نے اسے ایک مذہب کی حیثیت سے قبول کیا تھا تو پھر انھیں دین اسلام سے خارج سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ بدایونی کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں نے بادشاہ کے طریقہ کو قبول کیا انھوں نے ترکِ اسلام نہیں کیا اور احکامِ اسلام پر عامل رہے۔ مثلاً ملتان کے مشہور بزرگ موسیٰ پاک شہید بھی رسمی طور پر بادشاہ کے مریدوں میں شامل ہوگئے تھے۔
پرتکیز مشنریوں کے بیان کے مطابق مسجدوں کی تعمیر موقوف کردی گئی اور اس کی مرمت پر بھی پابندی لگادی گئی، مسجدوں کو اصطبل بنا دیا گیا اور اکبر اسلام کا سخت دشمن ہوگیا۔ اگر اس کو نہ مانا جائے ، تو پھر مجدد الف ثانی کے ان بیانات اور خطوط کی تردید ہوتی ہے جن میں انھوں نے تاسف کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے کہ گـــ۔ــفـــار بر ملا شعائرِ اسلام کی توہین کرتے ہیں، مسلمانوں کی جان و مال غیر محفوظ ہے ، مسجدیں شہید کی جاتی ہیں، اسلامی احکام کی انجام دہی ممنوع قرار دی گئی ہے اور مسلمانوں کو دینی امور کی انجام دہی سے باز رکھا جاتا ہے۔ وغیرہ اس کا جواب یہ ہے کہ مجدد الف ثانی نے کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ سب چیزیں بادشاہ کے حکم یا اس کی خواہش پر انجام دی جاتی تھیں، بلکہ ان بیانات کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چوں کہ اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کش مکش جاری تھی ، دہلی سلطنت کے آخری عہد اور اکبر کے ابتدائی حالات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، پورے ملک میں چھوٹے بڑے راجا مہاراجا حکومت کرتے تھے ، مسلمان حکم راں ان لوگوں سے لڑتے بھڑتے اور پورے ملک کو مرکزی حکومت سے جوڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس افراتفری کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑا اور وہ اسلام کا اعلان کروفر سے نہیں کرسکتے تھے، بلکہ مصلحت کے تحت بعض وقت وہ لوگ ہندوؤں کے رسم و رواج کو انجام دیتے اور اسے اپنی عملی زندگی میں بھی اختیار کرلیتے تھے۔
سلطانِ ہند جلال الدین اکبر کا دفاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر بالفرض بدایونی کے اندراجات کو ہی دلیل بنایا جائے تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اکبر بادشاہ نے ایک نئے دین کا اختراع کیا اور مدعئ نبوت ہوا، بلکہ اس سے صرف اتنا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک طریقہ ایجاد کیا جو اسلام سے متضاد تھا۔ در اصل مسئلہ کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ انگریز مورخین نے اکبر کے مذہبی رجحانات کو کتر بیونت کرکے عوام میں پیش کیا، اسے بہت سے لوگوں نے قبول کرلیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا محققانہ تبصرہ غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے، وہ اپنی کتاب The Muslim Community of the Indo Pakistan Subcontinant میں لکھتے ہیں :
”دورِ حاضر کے مصنفوں نے اکبر کے مذہبی خیالات کی نسبت بہت کچھ لکھا ہے۔ بعض نے زیادہ تر بدایونی پر انحصار کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس نے اسلام کو بالکل ترک کردیا اور ایک نئے مذہب کی بنا ڈالی۔ دوسروں کی رائے ہے کہ وہ مسلمان رہا اور مذہب اسلام سے اس کا تجاوز (Deviation) اہم نہ تھا۔ یہ صحیح ہے کہ بعض مصنفین نے بدایونی کے بیانات کو زیادہ وسیع مفہوم دیا ہے۔ اس کے لیے اس کے (مغربی) مترجمین ذمہ دار ہیں، بدایونی ایک ذہین اور چالاک اہلِ قلم تھا، اس میں اتنی قابلیت تھی کہ جو کچھ وہ کہے اس سے زیادہ سمجھا دے، اس کے کئی اندراجات ذو معنٰی ہیں اور ان کا ترجمہ بڑا مشکل ہے۔ جہاں ایسی صورت حال نہیں وہاں بھی اس کتاب کے (انگریزی) ترجمے درست نہیں اور کئی اہم الفاظ جن سے اس کے الزامی اندراجات میں کمی ہوتی ہے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بعض مصنّفین نے پرتکیزی پادریوں کے جن بیانات سے اپنی رائے کے لیے تائید حاصل کی ہے ، ان بیانات کو غلط یا انتہائی طور پر مبالغہ آمیز کہا جاسکتا ہے، لیکن یہ سب کچھ تسلیم کرنے کے بعد ان لوگوں کی رائے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر نے اسلام سے تجاوز نہیں کیا، صحیح نہیں۔ یہ سچ ہے کہ جان بوجھ کر ترکِ اسلام (کا اظہار) بہت خفیف معلوم ہوتا ہے (It is true that of conscious abjuring of Islam there was very little)۔ اکبر کو یقین تھا کہ اسلام کا جو مفہوم اس کا تھا وہ ان علماء ( کی ترجمانی) سے زیادہ معقول تھا، جن سے اس نے اختلاف کیا۔ عبد اللہ خان ازبک کے نام خط میں جب اس نے ترکِ اسلام کے الزام پر احتجاج کیا تو غالباً اس کا اظہار دیانت دارانہ تھا۔ اس کا ذہن پیچیدہ (Complex) تھا اور اس کی اتنی تربیت نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنے زاویہ ہائے نگاہ کے تناقض کو سمجھ سکتا۔ اس نے کئی ایسی چیزیں کیں، بلکہ اس کے کئی معتقدات ایسے تھے جن سے معمولاً آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، مثلاً آفتاب کے لیے اس کی تعظیم عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ خیال نہ تھا اور اس معاملہ میں وہ اس ذہنی انتشار کو شاید انتہائی صورت میں پیش کرتا ہے، جو کئی مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔
(The Muslim Community of the Indo Pakistan Subcontinant pg. 144-145)