سورہ البقرہ کی عصری معنویت

ہمارے سماج میں ایسے خوش فہم لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا یہ خیال ہے کہ امت مسلمہ کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اس لیے یہ جو چاہیں کریں ان کی دنیا یا آخرت میں کوئی شدید باز پرس نہیں ہو گی. اسی طرح کچھ دانشور یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ پاکستان اللہ کا ایک معجزہ ہے جسے نہ صرف تا قیامت باقی رہنا ہے بلکہ اسی مرکز سے چار دانگ عالم میں اسلام کو سیاسی اور سماجی بالادستی حاصل ہو گی.

قرآن کریم کی بعد از فاتحہ اولین سورت اسی خوش فہمی کو ایڈریس کرتی ہے

سورہ البقرہ بتاتی ہے کہ تخلیق آدم روئے زمین پر خلافت تفویض کرنے کے لیے عمل میں لائی گئی. آگے چلتے ہوئے یہ خلافت بنی اسرائیل کے حصے میں آئی. ان کے ساتھ یہ معاہدہ تھا کہ

اگر تم عہد کی پاس داری کرو گے تو اقتدار تمہارے پاس رہے گا

اور عہد یہ ہے کہ

دنیوی مفادات کے بدلے شرعی احکام اور عدالتی فیصلوں کو تبدیل نہیں کرو گے

ذاتی بد اعمالی اور دوسروں کو نصیحت کی روش نہیں اختیار کرو گے

نماز اور ثابت قدمی کو اپنا شعار بناؤ گے

ابنائے جنس کو ہلاک یا خانماں برباد نہیں کرو گے

رشتہ داروں سے حسن سلوک کروگے اور معاشرے کے کم حیثیت طبقے کے حقوق ادا کرو گے

معاہدات کی خلاف ورزی نہیں کرو گے

حق و باطل کو گڈ مڈ نہیں کردو گے

سچائی پر پردہ نہیں ڈالو گے

اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے

دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ گے

لیکن

تم نے اللہ کی مقرر کردہ حدود کو توڑ دیا

بے گناہ افراد کو قتل کیا یا انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا

اگر وہ مجبوری کی حالت میں تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کی داد رسی نہیں کی

تم نے حق و صداقت کو چھپا کر تعصبات کو پروان چڑھایا

تم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کی جان، مال اور عزت کو پامال کیا

تم نے ہر موقع پر اپنی سفلی ضروریات کے مطابق اپنے موقف تبدیل کئے

تمہارا خیال ہے کہ

تم انبیاء کی اولاد ہو

عالم میں برتر ہو

ابراھیم علیہ السلام کی نسل سے ہو

ارض مقدسہ کے باسی اور وارث ہو

اگر تم سے کچھ کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں تو تم معمولی سزا کے بعد بخش دئیے جاؤ گے

تمہارا دنیوی اور اخروی اعزاز تم سے نہیں چھنے گا

جب کہ یہ

سب کچھ ایک معاہدے کے تحت تھا کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو گے تو ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے

ہم اپنے بعض احکام کو بجا لانے اور بعض کو نظر انداز کردینے والوں کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے دوچار کرتے ہیں.

تمہاری وعدہ خلافی کے نتیجے میں اب انہیں شرائط پر امت مسلمہ سے معاہدہ کر رہے ہیں کہ اب انہوں نے پوری دنیا میں ہمارے پیغام کو لے کر اتمام حجت کرنا ہے لیکن

انہیں بھی یہ بتا دیا گیا ہے کہ

کسی خاص قبلہ کی طرف رخ کرنا کوئی خاص نسبت اور نسب، کوئی ہیئت، شکل اور وضع قطع اختیار کرنا موجب نجات ہے نہ مستحق خلافت بناتی ہے بلکہ

ذاتی زندگی

سماجی معاملات

بین الاقوامی تعلقات

عائلی امور

اخلاقی ذمہ داری

معاشی فرائض

ہر پہلو سے اس سورہ میں تفصیلی ہدایات دے دی گئی ہیں جو

دنیا میں اقتدار کی ضامن ہیں

اقتدار کا تعلق نہ کسی امت سے ہے نہ کسی سرزمین سے.

یہی وجہ ہے کہ سورہ البقرہ کے عالم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلامی ریاست میں کوئی نہ کوئی ذمہ داری سونپ دیا کرتے تھے.

طفیل ہاشمی