سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر عبید اللہ بن زیاد نے یزید بن معاویہ کے پاس شام بھیجا

==================================

امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

« وَيُقَالُ إِنَّهُ كَانَ مَعَهُ رُءُوسُ بَقِيَّةِ أَصْحَابِهِ، وَهُوَ الْمَشْهُورُ. وَمَجْمُوعُهَا اثَنَانِ وَسَبْعُونَ رَأْسًا، وَذَلِكَ أَنَّهُ مَا قُتِلَ قَتِيلٌ إِلَّا احْتَزُّوا رَأَسَهُ وَحَمَلُوهُ إِلَى ابْنِ زِيَادٍ، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا ابْنُ زِيَادٍ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ إِلَى الشَّامِ ».

’’ یہی قول مشہور ہے جو مجموعی طور پر 72 سر تھے اس لیے کہ جو شخص بھی قتل ہوا انہوں نے اس کا سر کاٹ لیا اور اسے ابن زیاد کے پاس لے گئے پھر ابن زیاد نے انہیں معاویہ بن یزید کے پاس شام بھجوا دیا ‘‘۔

(البدایة والنھایة لابن کثیر الدمشقي : ٨/ ١٨٩-١٩٠).

امام ابن کثیر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں :

« وقد اختلف العلماء بعدها في رأس الحسين هل سيّره ابن زياد إلى الشام إلى يزيد أم لا، على قولين، الأظهر منهما أنه سيره إليه، وَقَدْ وَرَدَ فِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ فاللَّه أعلم ».

’’ علماء نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا ابن زیاد نے اسے یزید کے پاس شام بھجوایا یا نہیں، اس بارے میں دو قول ہیں، ان دونوں میں سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ اس نے اسے یزید کے پاس بھجوایا تھا اور اس بارے میں بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم ‘‘۔

ڈاکٹر محمد جمیل غازی (استشهاد الحسين عليه السلام) (ص 110) میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول سے حجت پکڑتے ہوئے اس قول کو نقل فرماتے ہیں :

« وقد اختلف العلماء بعدها في رأس الحسين هل سيره ابن زياد إلى الشام إلى يزيد أم لا، على قولين، الأظهر منها أنه سيره إليه، وقد ورد في ذلك آثار كثيرة فالله أعلم ».

’’ علماء نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا ابن زیاد نے اسے یزید کے پاس شام بھجوایا یا نہیں، اس بارے میں دو قول ہیں، ان دونوں میں سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ اس نے اسے یزید کے پاس بھجوایا تھا اور اس بارے میں بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم ‘‘۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے جزم کے ساتھ سیر اعلام النبلاء میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو دمشق یزید کے پاس بھیجنے کا ذکر کیا ہے:

محمد بن جرير حدثث عن أبي عبيدة حدثنا يونس بن حبيب قال لما قتل عبيد الله الحسين وأهله بعث برؤوسهم إلى يزيد فسر بقتلهم أولا ثم لم يلبث حتى ندم على قتلهم.

یونس بن حبیب کہتے ہیں : جب عبید اللہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اھل کو قتل کردیا تو ان کے سروں کو یزید کے پاس دمشق بھیج دیا پہلے تو یزید ان کے قتل پر خوش ہوا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ ان کے قتل پر ندامت کر رہا تھا۔

(سير أعلام النبلاء – الذهبي – ج ٣ – الصفحة ٣١٧).

ابن العدیم « بغية الطلب في تاريخ حلب » میں لکھتے ہیں:

رمي الرأس الشريف بين يدي يزيد بن معاوية

قال ابن العديم : قالوا : ثمّ إنّ ابن زياد جهّز عليَّ بن الحُسين (عليه السّلام) ومَن كان معه من الحرم ، وجه بهم إلى يزيد بن معاوية مع زجر بن قيس ، ومحقن بن ثعلبة ، وشمر بن ذي الجوشن ، فساروا حتّى قدموا الشام ، ودخلوا على يزيد بن معاوية بمدينة دمشق ، وأدخل معهم رأس الحُسين فرمي بين يديه

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے رأس الشریف کو یزید کے سامنے پھینکنا : ابن العدیم کہتے ہیں : پھر ابن زیاد نے علی بن حسین رضی اللہ عنہما اور ان کی محرمات خواتین کو زجر بن قیس، محقن بن ثعلبہ، شمر بن ذی الجوشن کے ہمراہ یزید بن معاویہ کی جانب بھیج دیا یہ سب لوگ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خواتین اور ان کا سر لے کر چلے یہاں تک کہ شام پہنچ گئے اور دمشق میں یزید بن معاویہ کے پاس داخل ہوگئے اور ان کے ساتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر بھی تھا جسے انہوں نے یزید کے آگے پھینک دیا۔

(بغية الطلب في تاريخ حلب ـ ابن العديم 6 / 2631 .) .

علامہ ابن حجرعسقلانی نے الإصابة میں اور ابن الأثیر نے اسد الغابة میں اس بات کو جزم کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یزید بن معاویہ اپنی چھڑی سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو چھڑی سے کرید رہا تھا.

(الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر عسقلانی / اسد الغابة لابن الاثیر الجزري : 305/5).

اب ذیل میں ہم وہ تمام آثار اور اخبار نقل کرتے ہیں جنہیں محدثین اور مؤرخین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:

قال ابن أبي الدنيا: وحدثني سلمة بن شبيب قال: حدثني الحميدي عن سفيان، قال: سمعت سالم بن أبي حفصة يقول:

« قال الحسن: جعل يزيد بن معاوية يطعن بالقضيب موضع في رسول الله صلى الله عليه وسلم وا ذلاه!!!

قال سفيان: وأخبرت أن الحسن في أثر هذا الكلام قال: سمية أمسى نسلها عدد الحصى … وبنت رسول الله ليس لها نسل ».

ابن ابی الدنیا کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا سلمہ بن شبیب نے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا حمیدی نے بواسطہ سفیان، وہ کہتے ہیں: میں نے سالم بن ابی حفصہ سے سنا وہ کہتے ہیں:

امام حسن بصری نے فرمایا: حسن البصریؒ فرماتے ہیں: ہائے کیا پستی اور ذلّت ہے! یزید بن معاویہ اس جگہ چھڑیاں مار رہا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ لگا ہے۔

پھر حسن البصریؒ نے یہ کلام پڑھا: (جس کا مفہوم ہے)

“سمیہ (ابن زیاد کی دادی) کی نسل سنگریزوں کے برابر ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی نسل کوئی نہ رہی”

(انساب الاشراف للبلاذري :جلد : 3 صفحه : 214).

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس اثر کو البدایة والنھایة میں نقل کیا ہے :

قال ابن أبي الدنيا وحدثني مسلمة بن شبيب ، عن الحميدي ، عن سفيان ، سمعت سالم بن أبي حفصة قال :

قال الحسن : لما جيء برأس الحسين جعل يزيد يطعن بالقضيب .

قال : سفيان : وأخبرت أن الحسن كان ينشد على إثر هذا

سمية أمسى نسلها عدد الحصى وبنت رسول الله ليس لها نسل.

ابن ابی الدنیا کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا سلمہ بن شبیب نے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا حمیدی نے بواسطہ سفیان، وہ کہتے ہیں: میں نے سالم بن ابی حفصہ سے سنا وہ کہتے ہیں:

امام حسن بصری نے فرمایا: حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو یزید چھڑی سے ٹھوکے دینے لگا۔

پھر حضرت حسن البصری نے یہ کلام پڑھا: (جس کا مفہوم ہے)

“سمیہ (ابن زیاد کی دادی) کی نسل سنگریزوں کے برابر ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی نسل کوئی نہ رہی”

(البدایة والنھایة :560/11).

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے « الرد علی المعتصب العنید » اسی روایت کو نقل کیا ہے:

قال ابن أبي الدنيا: وحدثني سلمة بن شبيب قال: حدثني الحميدي عن سفيان، قال: سمعت سالم بن أبي حفصة يقول:

قال الحسن: جعل يزيد بن معاوية يطعن بالقضيب موضع في رسول الله صلى الله عليه وسلم وا ذلاه!!!

قال سفيان: وأخبرت أن الحسن في أثر هذا الكلام قال:

سمية أمسى نسلها عدد الحصى … وبنت رسول الله ليس لها نسل

امام حسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ہائے کیا پستی اور ذلّت ہے! یزید بن معاویہ اس جگہ چھڑیاں مار رہا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ لگا ہے ».

پھر حضرت حسن البصری نے یہ کلام پڑھا:

“سمیہ (ابن زیاد کی دادی) کی نسل سنگریزوں کے برابر ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی نسل کوئی نہ رہی”

[الرد علی المعتصب العنید ط العلمیة، صفحہ نمبر ۵۸].

قال ابن الجوزي : أنبأ عبد الوهاب بن المبارك ، قال : أنبأ أبو الحسين بن عبد الجبار ، قال : أنبأ الحسين بن علي الطناجيري ، ثنا خالد بن خداش ، قال : ثنا حماد بن زيد ، عن جميل بن مرة ، عن أبي الوَضِي ، قال :

نُحرتْ الإبل التي حُمل عليها رأس الحسين وأصحابه فلم يستطيعوا أكلها ، كانت لحومها أمرّ من الصبر. فلما وصلت الرؤوس إلى يزيد جلس ودعا بأشراف أهل الشام فأجلسهم حوله ، ثم وضع الرأس بين يديه ، وجعل ينكت بالقضيب على فيه ، ويقول :

نفلق هاماً ، من رجال أعزَّةٍ … علينا ، وهم كانوا أعقّ وأظلما

ابن جوزی نے ابو وضی سے روایت کی کہ جن اونٹوں پر امام حسین کے مبارک سر، اور ان کے اصحاب کو لے جایا گیا، جب انہیں ذبح کیا گیا، تو کوئی نہ کھا سکا۔ اور جب وہ مبارک سر یزید کو ملا، تو اس نے اہل شام کے بڑے لوگوں کو بلایا، اور مبارک سر کو ہاتھوں میں رکھ کر چھڑی سے مارنے لگا یہ کہتے ہوئے:

’’وہ تلواریں ان جوانوں کی کھوپڑیوں کو توڑ دیتی ہیں ….. جو ہم پر گراں ہوتے ہیں اور وہ بڑے نافرمان اور ظالم تھے۔‘‘

[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد لإبن الجوزي : ص : ٥٧].

درج بالا روایات میں مرکزی راوی ہیں سالم بن أبي حفصة جو صدوق ہیں لیکن غالی شیعہ ہیں، اسی بات کو بہانہ بناتے ہوئے کفایت اللہ سنابلی اور محمد فھد حارث نے سالم بن أبي حفصة کو ضعیف قرار دیا ہے۔ بلکہ کفایت اللہ سنابلی نے رافضی قرار دیا ہے اور محمد فھد حارث نے غالی شیعہ، کفایت اللہ سنابلی کا سالم بن أبي حفصة کو رافضی قرار دینا کذب بیانی ہے کسی ایک نے ان کو رافضی کی تہمت سے متہم نہیں کیا بلکہ غالی شیعہ کہا ہے۔ ہم اس راوی کے بارے میں محدثین کی رائے سے آپ کو آگاہ کر رہے ہیں تاکہ آپ اس بات کو اچھی طرح سے جان جائیں کہ سالم بن أبي حفصة کی شیعیت اس روایت کو لینے میں مانع نہیں ہے۔

《 سالم بن أبي حفصة 》.

259 – بخ ت : سالم بن أبي حفصة أبو یونُس العِجلی، الکوفي (١) (٢).

قال النسائي : لیس بثقة (٣)

_____________________

(١) قال المغلطاي في إکمال تھذیب الکمال ٦٠ب: « ذُکر في کتاب الصّریفیني أنه توفي قریباً من سنة أربعین ومئة ».

(٢) ترجمته في : الطبقات الکبری ٣٣٦/٢، تاریخ الدوري عن ابن معین ١٨٦/٢، تاریخ الدارمي عن ابن معین١٢٢، ١٢٣، سؤالات ابن الجنید لابن معین ٣٠٤ ، ٣٨٤، معرفة الرجال ١٠٩/١، العلل ومعرفة الرجال ٨٧/١ ، ١٣١ ، ٢٠٢ ،٢٢١ ، ٣٠٨/٢، من کلام الإمام أبي عبد اللہ أحمد بن حنبل في علل الحدیث ومعرفة الرجال ٦٩، التاریخ الکبیر ٢/٢/١١١، أحوال الرجال ٥٣-٥٤، معرفة الثقات ٣٨٢/١، الکنی والأسماء لمسلم ٩٢٥/٢، المعرفة والتاریخ ٥٩٥/٢، ٧٠٨، ٧٠٩، ٢٣٠/٣، ٢٤١، الضعفاء والمتروکین ١١٦، الکنی والأسماء ٢/ ١٦٠-١٦١، الضعفاء الکبیر ٢/ ١٥٢-١٥٣، الجرح والتعدیل ١٨٠/٢/١، المجروحین ٣٤٣/١، الکامل نسخة الظاھریة ١٧٣ب، ونسخة أحمد الثالث ٢٧/٢أ، المؤتلف والمختلف ٢٣٤٦/٤، الضعفاء لابن الجوزي ٥٥أ، تھذیب الکمال١٠ /١٣٣-١٣٨، میزان الاعتدال ٢ /١١٠-١١١، المغني في الضعفاء ٢٥٠/١، دیوان الضعفاء ١١٥، الکاشف ٣٤٣/١، إکمال تھذیب الکمال ٦٠ب، تھذیب التھذیب ٣/ ٤٣٣-٤٣٤، تقریب التھذیب ٢٢٦، فتح الباري ٢٩٥/٤، بحر الدم فیمن تکلم فیه الإمام أحمد بمدح أو ذم ١٦٦، خلاصة التذھیب ١٣١، نصوص ساقطة من طبعات أسماء الثقات لابن شاھین ٦٣.

(٣) الضعفاء والمتروکین ١١٦، الکامل ١٧٣ب، الضعفاء لابن الجوزي ٥٥أ، تھذیب الکمال ١٣٥/١٠، میزان الاعتدال ١١٠/٢.

(*) أقوال النقاد فیه، وبیان الراجح منھا:

قال ابن معین في روایة الدارمي، والکوسج، وابن أبي مریم: ثقة؛ وقال ابن محرز: وسمعت یحیی – وقیل له: سالم بن أبي حفصة ثقة؟ قال : نعم؛ وقال ابن معین أیضاً في روایة ابن الجنید : لیس به باس، کان مغلیاً في الشیعة؛ وفي روایة الدوري : وکان سالم بن أبي حفصة شیعیاً؛ وقال ابن نُمیر : ثقة، یتشیع؛ وقال عبد اللہ بن أحمد بن حنبل – کما في العلل ومعرفة الرجال -: قال أبي سالم بن أبي حفصة کنیة أبو یونس، وکان شیعیاً، له رأی – (کذا في المصدر المذکور لکن في الثقات لابن شاھین زیادۃ: سوء) – ، ما أظن به بأساً – یعني فی الحدیث -، روی عنه الثوري، وھو قلیل الحدیث؛ وقال أحمد ایضاً في روایة المروذي: لیس به باس، إلا أنه کان شیعیاً؛ وقال العجلي: ثقة؛ وقال أبوحاتم: ھو من عتق الشیعة، صدوق، یکتب حدیثه، ولا یحتج به؛ وقال ابن عدي: وسالم له أحادیث، وقد روی عنه الثوري، وابن عیینة، وابن فُضیل – (یعني محمداً) -، وغیرھم، وعامة ما یرویه في فضائل أھل البیت، وھو عندی من الغالین في متشیعي أھل الکوفة، وإنما عیب علیه الغلو فیه، فأما أحادیثه فأرجوا أنه لا بأس بھا؛ وقال أبو موسی المدیني : مختلف في حاله؛ وقال ابن خلفون في الثقات – کما في إکمال تھذیب الکمال -: تکلم في مذھبه؛ وقال ابن حجر في التقریب : صدوق في الحدیث، إلا أنه شیعي غالي.

(منھج الإمام ابي عبد الرحمن النسائي فی الجرح والتعدیل وجمع أقواله في الرجال / تألیف : الدکتور قاسم علي سعد – أستاذ الحدیث وعلومه المساعد بجامعة أم القریٰ بمکة المکرمة، ص :١ /١٧٦٨-١٧٦٩).

سالم بن أبي حفصة اس سے امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کی ہے، اس کی کنیت ابو یونس ہے، کوفہ کا رہنے والا ہے. امام نسائی نے کہا: یہ ثقہ نہیں ہے. حافظ مغلطائی نے کہا: ١٤٠هجری میں وفات پائی.

(*) علماء جرح و تعدیل کے سالم بن ابی حفصة کے بارے میں اقوال اور سالم بن ابی حفصة کے بارے میں راجح بیان.

امام یحییٰ بن معین سے دارمی، الکوسج اور ابن ابی مریم نے روایت کیا ہے: یہ ثقہ ہے، ابن محرز کہتے ہیں: میں نے امام یحییٰ بن معین سے سنا جب ان سے سالم بن ابی حفصہ کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ ثقہ ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں (وہ ثقہ ہے)؛ اور ابن جنید کی روایت میں امام یحییٰ بن معین سے اسی طرح منقول ہے: اس کے ساتھ روایت کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، یہ شیعیت میں غلو کرتا تھا، اور دوری کی روایت میں ابن معین سے منقول ہے: سالم بن ابی حفصہ شیعہ تھا، ابن نمیر کہتے ہیں: ثقہ ہے، شیعہ ہے، عبد اللہ بن احمد بن حنبل سے منقول ہے جیسا کہ علل و معرفۃ الرجال میں ہے کہتے ہیں: سالم بن ابی حفصہ اس کی کنیت ابو یونس ہے، یہ شیعہ ہے، اس کے بارے میں جو رائے ہے جیسا کہ ثقات ابن شاہین میں منقول ہے زیادتی کے ساتھ: اس کے بارے میں خراب رائے تھی (جو کہ شیعیت کے حوالے سے ہے) میں گمان کرتا ہوں اس کے ساتھ روایت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے، اور اس سے تو سفیان ثوری نے بھی روایت کی ہے، یہ قلیل الحدیث ہے، اور امام احمد سے مروذی کی روایت میں یہ بھی منقول ہے: کہ اس سے روایت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ شیعہ ہے، عجلی نے کہا: ثقہ ہے، امام ابو حاتم فرماتے ہیں: یہ شیعیت میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا، صدوق یعنی سچا ہے، اس کی حدیث لکھی جاتی ہے، لیکن حجت نہیں ہے. ابن عدی کہتے ہیں: اور سالم سے احادیث مروی ہیں، سالم سے سفیان ثوری نے روایت کی ہے، سفیان بن عیینہ اور محمد بن فضیل وغیرھم نے حدیث روایت کی ہیں، اور عام طور پر یہ اہل بیت کے فضائل میں احادیث روایت کرتا ہے، اور میرے نزدیک یہ کوفہ کے غالی شیعوں میں سے ہے، اور اس میں عیب یہی ہے کہ وہ شیعیت میں غلو کرتا تھا، اور جو اس کی احادیث ہیں میں مجھے امید ہے کہ سالم کے ساتھ احادیث روایت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے. ابو موسیٰ مدینی کہتے ہیں: اس کا حال مختلف ہے. ابن خلفون کہتے ہیں: ثقہ راویوں میں سے ہے جیسا کہ اکمال تھذیب الکمال میں ہے کہ اس کے مذہب میں کلام کیا گیا ہے. ابن حجر عسقلانی تقریب التہذیب میں کہتے ہیں: حدیث بیان کرنے میں سچا ہے مگر یہ غالی شیعہ ہے۔

اب بتائیں خود ہی انصاف سے فیصلہ کریں کہ ائمہ حدیث اور جرح و تعدیل کے اماموں نے سالم بن ابی حفصہ کو کیا متروک قرار دیا ہے؟ یا اس سے روایات لی ہیں؟ امام سفیان الثوری جلیل القدر ثقہ ثبت امام ہیں وہ سالم بن ابی حفصہ سے روایت کر رہے ہیں، سفیان بن عیینہ جیسے ثقہ ثبت امام سالم بن ابی حفصہ سے روایت کر رہے ہیں، امام جرح والتعدیل یحییٰ بن معین جو حجت ہیں وہ سالم کو ثقہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں اس کے ساتھ روایت کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے. امام احمد بن حنبل جو اہل الحدیث کے امام ہیں وہ سالم بن ابی حفصہ کے ساتھ روایت کرنے میں کوئی برائی تصور نہیں کر رہے ہیں، امام ابو حاتم فرما رہے ہیں یکتب حدیثہ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے مطلب کیا ہوا متروک نہیں ہے، ابن عدی جو جرح تعدیل کے امام ہیں وہ اس کا وصف بیان کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، محمد بن فضیل جیسے ثقہ ثبت اور حجت امام اس کے ساتھ روایت کر رہے ہیں، اور اس کی روایت کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، ابن خلفون نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے، ابن حجر نے کہا ہے سچا ہے مگر غالی شیعہ ہے۔ اور سالم بن ابی حفصہ اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہے، اس کی شہادت میں کئی لوگ اس بات کو بیان کررہے ہیں۔ جن کا ذکر ہم دوسرے پوسٹ میں کریں گے۔ ہم اس پوسٹ میں اس ساری صورتحال کو قارئین کے سامنے رکھیں گے جس سے یہ اس روایت کی سچائی مکمل طور پر ثابت ہورہی ہے۔

اب ایسی مفسر تعدیل کے بعد جرح کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ ہم ائمہ سلف کی مانیں یا ناصبیت میں ڈوبے ہوئے اشخاص کی باتوں کو تسلیم کریں، جو اپنی دلی خواہشات کی بنیاد پر رد اور قبول کرتے ہیں خود ان کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں متروک ترین راویوں سے اپنے دلائل کے ثبوت میں روایات لے کر آتے ہیں۔ جیسا کہ اپنے ایک پوسٹ میں ان کی پیش کردہ روایت پر جرح کرکے ہم نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔

✍ تحقیق و تخریج احادیث: S. M. Hussain