سب ہی مہاجرین و انصار کی زندگیوں میں پورے خلوص کے ساتھ خدمتِ دینِ کا جذبہ مشترک نظر آتا ہے، لیکن چونکہ یہ پاکیزہ ہستیاں بھی انسان تھیں اس لیے انسانی فطرت کے مطابق ان کے مزاج اور طبعیتوں میں فرق تھا۔ کچھ بزرگ اسلام کی نرمی اور جمال کی تجسیم تھے تو کچھ میں جلال کا عنصر نمایاں تھا اور اصولوں کی سختی سے پاسداری کی طرف زیادہ میلان تھا۔ ذہنی طور پر بھی مختلف صحابہ مختلف سطحوں پر تھے، دین کے مشترک دائرے میں رہ کر انفرادی جہتوں سے سوچتے تھے اور یوں ان کے اجتہادی نکتہ ہائے نظر میں کچھ فرق آجاتا تھا۔
جن اصحاب میں ہمیں سب سے زیادہ ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے، ان میں سیدّنا عمر فاروق، سیدّنا علی المرتضیٰ، سیدّنا عبداللٰہ بن مسعود اور سیدّنا ابوذر غفاری کے نام نمایاں ہیں۔ یہ بزرگ انتہائی متقی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہانت اور علمیت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے نظریات، فہم دین اور سماجی و سیاسی معاملات پر رائے اکثر یکساں ہوجاتی تھی۔ ان بزرگوں میں سے سیدّنا عمر اور مولا علی کو منصبِ خلافت ملا۔
امت کے ان دو عظیم الشان ستونوں کی ذہنی ہم آہنگی خلافتِ فاروقی کے دور میں بار بار سامنے آتی رہی۔ سیدّنا عمر فاروق کا اصول تھا کہ مہاجرین و انصار کے زیادہ تر جلیل القدر اور کبار صحابہ کو اپنے پاس مدینے میں رکھتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لے کر کاروبارِ سلطنت چلایا جائے۔ سیاسی قوت مدینہ کی مجلسِ شوریٰ میں ہی مرکوز تھی، صوبوں اور گورنروں کا مقصد خالصتاً انتظامی تھا۔
سابقون الاولون میں سے سیدّنا سعد بن ابی وقاص اور سیدّنا ابوعبیدہ بن الجراح فاروقی دور کے نمایاں جرنیل تھے۔ مدینے میں سیدّنا عمر فاروق کی مجلس شوریٰ میں سیدّنا طلحہ، سیدّنا زبیر، سیدّنا عثمان، سیدّنا عبدالرحمان، سیدّنا عباس، سیدّنا عبداللٰہ بن عباس، سیدّنا صہیب رومی، سیدّنا ابو ایوب انصاری، سیدّہ عائشہ اور عراق جانے تک سیدّنا عبداللٰہ بن مسعود نمایاں نام تھے۔ لیکن تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدّنا عمر فاروق جس شخص کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے اور سب سے زیادہ ان کا اتفاق جس مشیر کے مشوروں کے ساتھ دیکھنے میں آتا، وہ علی المرتضیٰ کرم اللٰہ وجہہ الکریم تھے۔
مثال کے طور پر نہاوند کے معرکے کو دیکھیں۔ یہ اسلامی تاریخ کی اہم ترین جنگوں میں سے ہے، ایران جیسی وقت کی سپر پاور جن دو جنگوں کی بدولت فتح ہوئی ان میں ایک قادسیہ اور دوسری نہاوند ہے۔ ایرانی اس جنگ کے موقع پر انتہائی جوش میں تھے، قومی تفاخر عروج پر تھا، ابتدائی شکستوں کے انتقام کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ شاہ ایران نے ایرانیوں میں قومی و مذہبی جذبہ ابھارنے کا پورا بندوبست کیا۔ ایران کا قدیم علم (وروش کاویانی) نکالا گیا جو جواہرات سے مزین تھا، ایرانی اس علم کے نکلنے کو نیک فال جانتے تھے اور فتح و کامرانی کا رمز تصورات کرتے تھے۔ مقدس ترین معبدوں کی آگ بھی میدان جنگ میں لائی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ فوج نہاوند میں اکٹھی ہوگئی۔ فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ولی عہد شہزادے کو سرِ لشکر مقرر کیا گیا۔
اسلامی لشکر کے سالار سیدّنا سعد بن ابی وقاص رض نے سب حالات تفصیل سے سیدّنا عمر فاروق کو لکھ بھیجے اور یہ بھی لکھا کہ کوفہ کی چھاؤنی میں مسلمان اجازت طلب کررہے ہیں کہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں اور طاقت کے مظاہرے میں پہل کریں تاکہ دشمن پر رعب پڑے۔
سیدّنا عمر نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا اور ارادہ ظاہر کیا کہ حالات کی سختی کے پیش نظر خود حجاز سے لشکر لے کر عراق جائیں اور ایرانیوں پر یلغار کریں۔
سیدّنا طلحہ رض نے کہا کہ آپ حالات کو بہتر سمجھتے ہیں، جو بھی فیصلہ کریں گے، ہم اطاعت کریں گے۔
سیدّنا عثمان رض نے رائے دی کہ حجاز کے علاوہ شام میں موجود لشکر اور یمن میں موجود لشکر کو بھی ساتھ لے کر سیدّنا عمر خود عراق پہنچیں۔
سیدّنا علی نے اس رائے سے اختلاف کیا اور مشورہ دیا کہ سیدّنا عمر مدینہ نہ چھوڑیں اور یمن اور شام کے والیوں کو بھی اپنی جگہہ پر مضبوطی سے جمے رہنے کا حکم دینا۔ عراق ہی کی مختلف چھاؤنیوں میں موجود مسلمانوں کی فوجیں اکٹھے کرکہ ان کا سالار وہاں مقیم کسی مسلمان کو بنائیں جو اس ملک کو سمجھتا ہوں اور ایرانیوں کے مقابل کریں۔
سیدّنا علی نے اس نکتہ نظر کی دلیل یہ پیش کی کہ مسلمان تعداد کے زور پر لڑتے ہیں نہ اپنے حکمران کے لیے لڑتے ہیں۔ وہ تقویٰ کے زور پر اللٰہ کے لیے لڑتے ہیں، لہذا امید کی جاسکتی ہے عراق میں موجود اسلامی فوج وہاں کے کسی مقامی سالار کی قیادت میں ایرانیوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہوگی۔ اور بالفرض اس صورت میں اگر مسلمان شکست بھی کھا جاتے ہیں تو شام، یمن اور حجاز کے علاقے محفوظ رہیں گے، سب سے بڑھ کر یہ کہ خود خلیفہ یعنی سیدّنا عمر اور ان کی مجلس شوریٰ جو ریاستِ اسلامی کی جان ہیں، محفوظ رہیں گے اور اس جنگ کے نام پر پوری امت اور ریاست داؤ پر نہیں لگ جائے گی۔
سیدّنا عمر نے اس مشورے کو پسند کیا، نعمان بن مقرن کو سالار مقرر کیا اور عراق کی مختلف چھاؤنیوں میں موجود اسلامی فوج کو نہاوند کے میدان میں اتارا۔ مسلمان کامران ہوئے۔ ایران فتح ہوگیا۔
اس طرح کئی فاروقی دور کی جنگوں میں پالیسی اور سٹریٹجی کے حوالے سے مولا علی کے مشوروں نے کلیدی کردار ادا کیا اور سیدّنا عمر نے ہمیشہ مولا علی کی رائے کو دیگر مشیروں کی رائے پر فوقیت دی۔
آج کئی لوگ یہ کہہ کر اپنا خبث باطن ظاہر کرتے نظر آتے ہیں کہ مولا علی کا رسول اللٰہ صلی اللٰہ علیہ وسلم کے دور کے بعد شیخین کریمین کے عہد میں ہونے والی شاندار فتوحات، بشمول ایران و روم کو شکست دینے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ان کی اس بات کو مولا علی کے شیعہ (حمایتی) ہونے کے کئی دعوے دار لیکن کم علم لوگ بھی تسلیم کرلیتے ہیں اور شیخین کریمین کے دور کی جنگوں، بشمول فتح ایران و روم سے بیزار ہوجاتے ہیں، حالانکہ یہ فتوحات صرف عمر رضی اللٰہ عنہ کی نہیں، اسلام کی فتوحات تھیں اور مولا علی کا بطور چیف ایڈوائزر، پالیسی میکر اور سٹریٹجسٹ، ان فتوحات میں انتہائی نمایاں حصہ تھا۔
——
امیر المومنین سیدّنا عمر فاروق رضی اللٰہ عنہ اور مولا علی المرتضیٰ کرم اللٰہ وجہہ کی پارٹنرشپ صرف جنگوں اور فتوحات کی منصوبہ بندی تک محدود نہ تھی۔ دین اور ریاست سے متعلق دیگر اہم معاملات میں بھی ان دونوں بزرگوں کی شراکت سے امت کو بے مثال فیض پہنچا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہجری قمری کیلنڈر ہے۔ جب امیر المومنین عمر ابن خطاب نے اسلامی تہذیب کو اس کی اپنی تقویم عطاء کرنے کا فیصلہ کیا تو سوال اٹھا کہ اس کیلنڈر کو کس تاریخ سے شروع کیا جائے۔ کسی کی رائے تھی کہ بعثت نبوی سے تو کوئی عام الفیل کا مشورہ دیتا تھا، کوئی خاتم النبین کے دنیا سے پردہ فرما جانے کی تاریخ تجویز کررہا تھا تو کوئی جنگ بدر کو نئے کیلنڈر کی بہترین شروعات بتاتا تھا۔ ایسے میں سیدّنا عمر رضی اللٰہ عنہ کو وہی تاریخ پسند آئی جو مولا علی کرم اللٰہ وجہہ نے تجویز فرمائی یعنی ہجرت مدینہ۔ (بحوالہ : البدایہ والنہایہ) اس تجویز اور فیصلے کے پیچھے گہری حکمت کارفرما تھی۔ کیلنڈر کا تعلق مدنیت سے ہوتا ہے اور ہجرت مدینہ ہی اسلامی مدنیت کی شروعات تھی۔ اس تاریخ سے کیلنڈر شروع کرکہ اُمت کو تصورِ اُمت اور اسلامی مدنیت و ریاست کی اہمیت بھی بتائی گئی کیونکہ یہ تاریخ اُمت کے ایک شہری ریاست کی صورت منظم ہونے کی تاریخ ہے۔
مولا علی کا کردار خلافتِ فاروقی میں صرف مجلسِ شوریٰ کے سب سے اہم رکن کا نہیں تھا۔ سیدّنا عمر فاروق نے انہیں عملاً جزیرہ نمائے عرب کا قاضی القضات بھی مقرر فرما رکھا تھا۔ سیدّنا عمر کے دور میں تین چیف جسٹس تھے۔ شام اور مصر کے تمام قاضیوں کے فیصلے کے خلاف اپیل سیدّنا ابوعبیدہ بن الجراح رض کی عدالت میں ہوتی اور ان علاقوں میں سیدّنا ابوعبیدہ کے فتوے سے مقدم کوئی فتویٰ نہیں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ایران و عراق میں یہی معاملہ عبداللٰہ بن مسعود کا تھا۔ جبکہ جزیرہ نمائے عرب یعنی حجاز، یمن اور دیگر علاقوں میں مولا علی بن ابی طالب کی عدالت سب سے بڑی تھی اور ان ہی کا فتویٰ سب سے مقدم تھا۔
مولا علی رض ہی وہ واحد شخص تھے جن کی طرف سے کسی کیس کا فیصلہ ہوجانے کے بعد سیدّنا عمر رض خود اس کیس کو نظر ثانی کے لیے بھی نہیں دیکھتے تھے اور اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ جس معاملے کو مولا علی نے نمٹا دیا ہو، اسے ان کے سامنے لایا جائے۔
صحابہ کہا کرتے تھے کہ مشکل مسائل کے حل اور گُتھیوں کے سلجھانے میں سب سے زیادہ قدرت والے علی ہی ہیں۔ جب کسی مسئلے کا کوئی حل نہ ملتا اور کسی ایک طرف طبعیت مطمئن نہ ہوتی تو معاملہ بارگاہِ علی میں پیش کردیا جاتا۔ اسلامی تاریخ، ادب اور فقہ کی کتب میں یہ جملہ ضرب المثل بن گیا کہ “ایک پیچیدہ مسئلہ سامنے ہے مگر اس کے حل کے لیے ابو الحسن نہیں۔” مولا علی کی یہ علمی دھاک بیٹھنے کی ایک وجہ سیدّنا عمر کا مولا علی کے علم اور ذہانت ان پر بے مثال اعتماد بھی تھا جو وہ بطور خلیفہ ان پر کرتے تھے۔
دوسری طرف مولا علی کے سیدّنا عمر بارے خیالات کا اندازہ یوں تو کئی روایات سے ہوتا ہے لیکن ابن اثیر کی الکامل فی التاریخ سے ایک واقعہ دل کو گداز کردیتا ہے۔ :
خلافتِ فاروقی کے دور میں ایک مرتبہ احاطہِ صدقہ میں عمر ابن خطاب، علی ابن ابی طالب اور عثمان ابن عفان موجود تھے۔ سیدّنا عمر بیت المال کا حساب کرکہ مولا علی کو بتا رہے تھے اور مولا علی اسے قاعدے کے ساتھ سیدّنا عثمان کو لکھوا رہے تھے۔ سخت دھوپ اور گرمی تھی۔ سیّدنا عثمان اور مولا علی چھاؤں میں بیٹھے تھے لیکن عمر دھوپ میں کھڑے صدقہ کے اونٹ شمار کررہے تھے اور ان کا رنگ اور دانت نوٹ کررہے تھے، اس حالت میں کہ جسم پر دو پرانی موٹی چادریں تھیں، ایک دھڑ پر لپیٹے ہوہے اور دوسری سر پر ڈالے ہوئے۔ جسم پسینے سے شرابور لیکن مضبوط اور توانائی سے بھرپور تھا۔ مولا علی نے انہیں غور سے دیکھا اور سیدّنا عثمان سے مخاطب ہوکر سورہ القصص کی چھبیس ویں آیت پڑھی جس میں سیدّنا شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی بات بیان ہوئی ہے جو انہوں نے سیدّنا موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اپنے بابا سے کہی تھی : “بے شک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں گے، وہی ہے جو طاقتور امانت دار (القوی الامین) ہو۔” یہ آیت پڑھ کر مولا علی نے سیدّنا عمر کی طرف اشارہ کرکہ سیدّنا عثمان سے کہا : یہی ہیں وہ جنہیں قوی امین کہا جائے۔
ایک روایت ہے سیدّنا عمر فرمایا کرتے : اگر علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ اس بات کا سیدّنا عمر کو کس قدر احساس تھا، اس کا اندازہ کنزالعمال اور الاصابہ، دونوں کتابوں میں منقول ایک روایت سے ہوتا ہے۔ سیّد الشہداء امام حسین بن علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
مجھ سے ایک روز جناب عمر (رضی اللٰہ عنہ) نے کہا، بیٹے ! تم ہمارے پاس بھی آیا کرو اور مل لیا کرو۔ ان کے کہنے کی بنا پر ایک روز میں ان کے ہاں گیا تو وقتِ تخلیہ تھا۔ ابن عمر رض دروازہ پر کھڑے اپنے والد سے ملاقات کا انتظار کررہے تھے لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ یہ دیکھ کر میں بغیر خبر کئی ہی واپس چلا آجا۔ پھر ایک روز جناب عمر سے سامنا ہوا تو انہوں دریافت کیا کہ بیٹا، آپ میرے پاس آئے نہیں ؟ میں نے کہا کہ تخلیہ تھا اور ابن عمر واپس آگئے تو میں بھی لوٹ آیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم عبداللٰہ سے زیادہ اجازت پانے کے حق دار تھے، ہمارے دل و دماغ میں ایمان کی جو تُخم ریزی ہوئی، وہ اللٰہ کے احسان کے بعد تمہارے گھرانے کا ہی فیض ہے۔ یہ کہہ کر اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا۔
احمد الیاس