سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں والی (گورنر) کی حیثئیت

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں والی (گورنر) اور عامل (کمشنر) کی حیثئیت سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً انتظامی تھی۔ وہ حکمران نہیں بلکہ سرکاری ملازم ہوتے تھے جن کا کام حکومتی پالیسی پر عمل درآمد اور صوبے یا علاقے میں تعینات مسلم فوجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوتا تھا۔ اسی سبب ان کا انتخاب تقویٰ اور علم سے زیادہ ان کی انتظامی و عسکری صلاحیتوں کی بنیاد پر عمل میں آتا تھا۔

خلیفہِ دوم کے گورنرز صوبے میں مالک و مختار ہرگز نہیں ہوتے تھے بلکہ ان سے زیادہ طاقتور امین المال اور قاضی ہوا کرتے تھے۔ قاضی شرعی بنیادوں پر گورنر کے کسی بھی فیصلے کو ردّ کرسکتے تھے اور امین المال کے پاس خزانے کا کنٹرول ہوتا تھا اور گورنر کو بھی ان کی اجازت سے خرچ کرنا ہوتا تھا۔ قاضی کی تقرری میں علم اور امین کی تقرری میں تقویٰ و ایمانداری کو دیکھا جاتا تھا۔

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ریاست دراصل جمہوریہِ مدینہ تھی اور وفاقی نہیں بلکہ واحدانی خطوط پر استوار تھی۔ اجتہاد اور پالیسی کے تمام فیصلے سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی مجلسِ شوریٰ کے ساتھ مدینہ میں لیتے تھے اور گورنروں کا کام ان اجتہادات اور پالیسیوں کو صرف نافذ کروانا تھا۔ اس تناظر میں ان کی حیثئیت مزید محدود ہوجاتی تھی۔

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کسی گورنر کو کسی ایک صوبے میں زیادہ دیر تعینات بھی نہیں رہنے دیتے تھے تاکہ وہ وہاں اپنی ذاتی سیاسی پارٹی نا بنا لے۔

اس ڈھانچے میں تبدیلیاں ان کے جانشین، تیسرے خلیفہ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیں جس سے ایک گورنر کو (جو سیدّنا عمر کے دور میں محض کمشنر یا نائب گورنر تھا) ایک بڑے اور اہم صوبے میں اس قدر پاؤں جمانے کا موقع ملا کہ موقع ملنے پر اس نے اسلامی ریاست کو تقسیم کیا، خلافتِ راشدہ کے آئین کو پہلے معطل اور پھر منسوخ کردیا۔

لہذا سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کسی کو گورنر مقرر کرنا نہ تو لازمی طور پر اس شخص کے تقویٰ و علم کی دلیل ہوتی ہے نہ ایسی کوئی تقرری سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلاف بطور دلیل استعمال ہوسکتی ہے۔

خود زیادِ لعین پہلے پہل مولا علی علیہ السلام کی جانب سے ایران کے ایک علاقے میں گورنر مقرر تھا کیونکہ ہوشیار آدمی تھا، لیکن پھر امیرِ شام نے اسے خطوط لکھے اور اس بات کا حوالہ دیا کہ تم میرے باپ کے ناجائز بیٹے اور میرے بھائی ہو، میری طرف آجاؤ تو تمہیں مالا مال کردوں گا اور وہ بدبخت چلا گیا۔ اسی طرح مولا علی ع اور امام حسن ع کے کئی جرنیل مال و دولت کی ہوس میں بھٹک گئے تھے، اسی لیے امام حسن ع کو مجبوراً باغی سے صلح کرنی پڑی تھی۔

جس طرح مولا کی اس تقرری یا دیگر جرنیلوں کی خیانت کو مولا علی علیہ السلام کے خلاف یا زیادِ لعین کے حق میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، اُسی طرح سیدّنا عمر رض کی سوریا کی کمشنری پر تقرری کا معاملہ ہے۔

احمد الیاس