شرعی امور میں صحابہ کا اختلاف اور میری تربیت…

حافظ صفوان

.

میرے والد مرحوم پروفیسر عابد صدیق صاحب مجھے صحابہ کے آپسی اختلاف پر زبان بند رکھنے کی تلقین کے بجائے بہت خوبصورت مثالیں دے کر سماجی اور انسانی سطح پر اُن کی عظمت کا نقش قائم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اِس ترتیب پر تربیت کا فائدہ یہ ہوا کہ میں اصولِ دین یعنی قرآن سے روشنی لے کر انسانی معاملات کو انسانی اور سماجی سطح پر سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اِس ضمن میں تبلیغی جماعت کے دو بزرگوں مولانا محمد احمد انصاری اور مولانا سعید احمد خاں مہاجر مکی کا بہت کردار ہے۔ کل رات ایک پرانے قائدین تبلیغی دوست سے بات ہوئی جو میرے ساتھ 1989 کے رائے ونڈ اجتماع میں شریک تھے جہاں ہمیں سات دن تک مولانا سعید احمد خاں کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ اُن دنوں کا ایک واقعہ رات ذکر ہوا۔ لیجیے یہاں لکھتا ہوں۔

اُن دنوں میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ صحابہ کرام کے اختلافات اور جنگوں کے بارے میں بہت سوالات ذہن میں اٹھتے تھے اور اِن کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوئے ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے اور یہ بات عام مشہور تھی کہ چونکہ جہاز کا پائلٹ شیعہ تھا اِس لیے اُس نے علامہ عارف الحسینی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ضیاء الحق کا جہاز خود کریش کیا ہے۔ یہی سوالات میں نے اُن سات دنوں میں مولانا سعید خاں صاحب سے بھی بار بار کیے۔ شدید سردیاں تھیں اور لمبی راتیں۔ ایک رات مولانا نے طویل گفتگو کی اور بتایا کہ صحابہ کے اختلافات دو طرح کے تھے: سیاسی اور دینی۔ بس یاد رکھیے کہ سیاسی اختلافات تو ہوتے ہیں اور اِن میں اتار چڑھاؤ آتا ہی ہے۔ ہمیشہ کچھ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں ہوتے۔ اِن میں اقتدار کی جنگ ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اقتدار کی جنگ انسانی معاملہ ہے اور اِس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اقتدار والی لڑائی کو ہمیشہ سیاسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ پھر ایک بڑے سیاسی خاندان کے دو مشہور لوگوں کے آپسی سیاسی اختلافات کا بتایا۔

اِس کے بعد مولانا نے صحابہ کے شرعی و دینی امور میں اختلافات کا تفصیل سے ذکر کیا اور اپنی بات یوں شروع کی کہ ہر نبی کی طرح نبی کریم علیہ السلام بھی دین لے کر آئے تھے اور تبلیغِ دین ہی اُن کا کل وقتی پیشہ تھا۔ حکومت کبھی تھی کبھی نہیں تھی یا کبھی جنگ جیت لی اور کبھی ہار گئے لیکن دین کی تبلیغ کا کام ہر حال میں سات دن چوبیس گھنٹے چلتا تھا۔ صحابہ نے بھی نبی کریم سے دین کی تبلیغ کا کام ایسے سیکھا کہ خواہ اُن کی جتنی بھی جنگیں ہوئیں اور آپسی سیاسی اختلافات رہے لیکن تبلیغِ دین کے کام کی رفتار کبھی ماند نہیں پڑی۔ چنانچہ ہمیں صحابہ سے تبلیغِ دین میں مستقل لگے رہنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ وہ لوگ گھر بار کاروبار ہر طرح کی مصروفیتوں کو بھی نبھاتے تھے اور اُن میں سے بعض سیاست بھی کرتے تھے لیکن اِس سب کے ساتھ تبلیغِ دین کا کام پہلے نمبر پر رکھے ہوئے تھے۔

مولانا نے اپنی بات جاری رکھی اور بتایا کہ صحابہ میں شرعی اور دینی امور میں اختلاف کیسا ہوتا تھا اور اِس اختلاف کے ساتھ وہ آپس میں کیسے رہتے تھے۔ کہنے لگے کہ صرف اذان اور نماز ہی میں اِس قدر اختلافات ہیں کہ شمار مشکل ہے۔ مثلًا حضرت بلال چھت پہ چڑھ کے اذان دیتے تو ایک جگہ کھڑے نہیں رہتے تھے بلکہ چل پھر کر اور کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہوکر اور پکار پکار کر آواز دیتے تھے، جب کہ باقی لوگوں میں سے کوئی اذان دیتا تو ایک ہی جگہ کھڑا رہتا۔ مزید بتایا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رکوع اِس طرح کرتے تھے ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے کے بجائے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے درمیان رکھ کے گھٹنے جوڑ لیتے تھے۔ (مولانا نے کھڑے ہوکر اِس طرح رکوع کرکے دکھایا۔) ایک صحابی کا بتایا کہ وہ اپنے جوتے سجدے والے جگہ پر رکھ کے نماز پڑھتے تھے کہ نعلین تحت العین۔ لیکن اِس سب کے باوجود آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی صحابی نے دوسرے صحابی کو نماز مختلف طرح سے پڑھنے پر روکا یا اُس کی نماز کو غلط کہا اور اپنی کو درست کہا۔ کنے لگے کہ شرعی اور دینی اختلافات کو صحابہ کبھی باہمی نزاع کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں آج تک نماز ایک جیسی ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ نہ حج۔ مختلف علاقوں کے لوگ اپنے اپنے طریقوں سے یہ سب عبادات کرتے ہیں۔ چنانچہ تبلیغ والے چھہ نمبر کی بات کرتے ہیں نہ کہ نماز روزے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ نماز کا وقت ہو تو مسلمان نماز پڑھے، خواہ ہاتھ باندھ کر پڑھے یا ہاتھ چھوڑ کر۔ اِن مسائل کو کبھی بحث کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔

القصہ شرعی معاملات میں سیکولر رویہ اختیار کرنے کی یہ تربیت میں نے مولانا سعید احمد خاں صاحب سے تبلیغی جماعت میں حاصل کی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، مجھے پچھلے تینتیس چونتیس سال میں کسی کے طریقِ عبادت پر کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ فتویٰ لگانے سے رک جانا سب سے بڑا تقویٰ ہے۔