شریعت میں آل محمد کون ہیں

شریعت میں آل محمد کون ہیں؟ ― شیخ ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ

❞سوال: شریعت میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مراد ہے کہ مومنین و مسلمین بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہیں۔ (ابو علی عسکری)

جواب: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے بارے میں اہل علم مختلف فیہ ہیں:

(١) ایک قول یہ ہے کہ آل نبی سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے پھر ان میں بھی اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ آل نبی جن پر صدقہ حرام ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب ہیں امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ خاص طور پر بنو ہاشم ہیں۔

(٢) دوسرا قول یہ ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آپ کی اولاد اور بیویاں ہیں۔

(٣) تیسرا قول یہ ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد قیامت تک آنے والے آپ کے پیروکار ہیں۔

(٤) چوتھا قول یہ ہے کہ آل سے مراد آپ کے امت کے متقی و پرہیز گار لوگ ہیں۔

پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ کھجوریں پکنے کے وقت آپ کے پاس مختلف کھجوریں لائی جاتی تھیں مختلف لوگ کھجوریں لاتے یہاں تک کہ آپ کے ہاں کھجوروں کا ڈھیر لگ جاتا۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما ان کھجوروں سے کھیلنے لگتے تو ان میں سے ایک نے کھجور پکڑ کر منہ میں ڈال لی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے منہ سے کھجور نکال دی اور فرمایا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاتے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ ربیعہ اور فضل بن عباس کے لیے آپ نے فرمایا تھا کہ یہ صدقات لوگوں کی میل کچیل ہیں اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لیے حلال نہیں۔

آپ کی اولاد اور ازواج کو آل محمد میں شامل کرنے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ:

“اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته” (صحیح البخاری، ابو داؤد)

“اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج اور اولاد پر رحمت نازل کر۔”

امام ابن عبد البر نے موطا کی شرح تمہید میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آل محمد سے مراد آپ کی بیویاں اور اولاد ہے اور “اللّٰهُم صلِّ على محمد وأزواجه وذريته” آل محمد کی تفسیر ہے۔

اسی طرح صحیحین کی حدیث “اللّٰهُم اجعل رزق آل محمد قوتا”

“اے اللہ! آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رزق بقدر خوراک بنا دے۔”

ظاہر ہے کہ آپ کی ہر دعائے مستجاب تمام بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب پر صادق نہیں آتی کیونکہ ان میں اس وقت بھی دولت مند اور صاحب وسعت تھے اور اب بھی ہیں مگر ازواج و ذریت پر یہ دعا بالکل صادق آتی ہے کیونکہ آپ کی زندگی میں ان کا رزق بقدر خوراک تھا اور آپ کے بعد بھی یہی حال تھا اگر کہیں سے مال آ جاتا ازواج مطہرات بقدر خوراک رکھ کر باقی صدقہ کر دیتی تھیں۔

تیسرے قول کی دلیل یہ ہے کہ معظم اور متبوع شخص کی آل وہ ہوتی ہے جو اس کے طریقہ اور دین پر ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِلَّا آلَ لُوطٍۖ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ﴾ (القمر: ٣٤)

“ہم نے آل لوط علیہ السلام کو سحری کے وقت نجات دی۔”

یہاں آل لوط سے مراد ان کے پیروکار ہیں اسی طرح ارشاد باری ہے:

﴿أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (غافر: ٤٦)

“آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔”

یہاں آل فرعون سے مراد اس کے پیروکار ہی ہیں اسی طرح واثلہ بن اسقع کے بارے میں بیہقی میں حدیث ہے کہ آپ نے انہیں اپنے اہل میں شمار کیا حالانکہ واثلہ رضی اللہ عنہ نسب میں تو بنو لیث بن بکر میں سے تھے لیکن وہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے۔

چوتھے قول کی دلیل یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کے بارے میں ارشاد ہے کہ

﴿إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ﴾ (ھود: ٤٦)

“یہ آپ کے اہل میں سے نہیں اس لیے کہ یہ اچھے اعمال والا نہیں ہے۔”

امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے جلاء الافهام میں اس موضوع پر مفصل بحث رقم کر کے فرمایا ہے کہ ان چاروں میں سے صحیح ترین قول پہلا ہے کیونکہ اس شبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ان احادیث میں رفع کر دیا کہ ’’صدقہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال نہیں‘‘ اور ’’آل محمد کو رزق بقدر خوراک عطا کر‘‘ ان احادیث کے مضمون کو ملحوظ رکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد عموم امت کو سمجھنا قطعا غلط ہے۔ تفصیل کے لیے “جلاء الافهام” للامام ابن القیم ملاحظہ فرمائیں۔❝

[تفہیم دین از مبشر احمد ربانی صفحہ ٧٥-٧٧ ط. دار الاندلس]