شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) عہدِ جہانگیر میں (تُزکِ جہانگیری کے تناظر میں):۔
شیخ احمد سرہندی جنھیں مجدد الف ثانی (متوفیٰ 1034ھ) بھی کہا جاتا ہے، کی نسبت عام نصابی کتب سمیت تواریخ میں درج ہے کہ انھوں نے مغل بادشاہ، اکبر کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ برصغیر کے مؤرخ شیخ محمد اکرام کے مطابق یہ نادرست ہے۔ شیخ احمد سرہندی کا اکبر کے دور میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے؛ البتہ اکبر کے بعد، حکمران بننے والے اس کے بیٹے جہانگیر نے اپنی “توزکِ جہانگیری” میں اِن کا مجہول اور نامناسب انداز سے ذکر کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے عہد میں انھیں وہ مقام میسر نہ تھا جو بعد میں ملا۔ یاد رہے کہ جہانگیر اولیا و صوفیا کی عظمت کا معترف اور انھیں انتہائی اعلیٰ مقام دیتا تھا۔ جلوس کے بعد چودہویں جشنِ نوروز کے ذیل میں جہانگیر نے لکھا ہے:
(مجھے یعنی جہانگیر کو) معلوم ہوا کہ شیخ احمد نامی ایک شخص نے جال فریب اور مکر کا سرہند میں بچھا کر بہت سے ظاہر پرستوں اور سادہ لوحوں کو صید (شکار) اپنا کر رکھا ہے اور ہر شہر و ولایت میں ایک آدمی مریدوں میں سے کہ قاعدہ دکان آرائی اور معرفت فروشی اور مردم فریبی کا اوروں سے بہتر جانتا ہو، خلیفہ نام رکھ کر بھیجا ہے اور مزخرفات کہ اپنے مریدوں اور معتقدوں کو لکھے اس کی ایک کتاب بنا کر مکتوبات نام رکھا اور اس مجموعہء مہملات میں بے فایدہ باتیں لکھیں کہ ساتھ کفر و زندیقی کے پہنچا دیں- ان سب میں سے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ اثناے سلوک میں گزر میرا مقام ذوالنورین میں ہوا، ایک مقام دیکھا نہایت عالی اور خوب صفا، وہاں سے گزر کر مقام فاروق میں پہنچا اور مقام فاروق سے مقام صدیق کو میں نے عبور کیا اور ہر ایک کی تعریف لائق اس کے لکھی اور اس جگہ سے مقام محبوبیت میں پہنچا، ایسا مقام دیکھا نہایت نورانی اور رنگین- میں نے (اپنے) آپ کو انواع نوروں اور رنگوں سے منعکس پایا یعنی استغفر اللہ میں مقام خلفا سے گزر کر عالی مرتبت کو آیا اور گستاخیاں کیں کہ لکھنا ان کا طول ہے اور ادب سے دور ہے- اس واسطے میں (جہانگیر) نے حکم کیا کہ درگاہ عالی میں حاضر کریں- موافق حکم کے ملازمت (یعنی بادشاہ کے حضور) میں حاضر کیا (گیا) اور جس بات کو میں نے دریافت کیا، جواب معقول دینا نہ آیا اور باوصف کمیء عقل و دانش کے پُرغرور اور متکبر اور خودپسند معلوم ہوا- اصلاح اس کی میں نے اس میں دیکھی کہ چند روز قید خانہ ادب میں مقید رہے تو شوریدگی مزاج اور آشفتگی دماغ اس کے کی اصلاح ہو جائے گی اور گمراہ ہونا عوام کا بھی کم ہوگا- ناچار انی راے سنگدلن کے حوالے کیا کہ قلعہ گوالیار میں قید رکھے-
[تزکِ جہانگیری؛ مترجم اردو: مولوی احمد علی رامپوری۔ کانپور، مطبع نظامی۔ جلد 2، صفحہ 195، 196]
(یہ ترجمہ آرکائیو نامی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے)-
صرف شیخ احمد سرہندی کی بات نہیں، بہت سی ایسی تاریخی شخصیات گزری ہیں، جنھیں بعد میں “ہیرو” کے طور پر پیش کیا گیا؛ جبکہ اپنے دور میں انھیں کوئی پہچانتا نہ تھا- تاریخ اور تاریخی شخصیات کا از سر نو جائزہ ازحد ضروری ہے- مزید تفصیل کے لیے شیخ محمد اکرام کی “رود کوثر” اور ڈاکٹر مبارک علی کی “المیہء تاریخ” ملاحظہ کی جا سکتی ہیں-
امجد عباس