یہ واقعہ آزمائش کی تاریخ کا سچا اور مشہور واقعہ ہے
شیخ عبداللّٰہ اندلسی رحمہ اللہ علیہ بہت پایہ کے بزرگ اور محدث وقت گذرے ھیں حافظ قرائن ھونیکے ساتھ ایک لاکھ حدیثوں کے حافظ تھے انکے دم سے مسند درس وارشادآباد تھالاکھوںشاگرداورمریدین تھے علامہ شبلی جیسے نابغہ روزگار اور علم وعمل کاکوہ گراں آپکے مریدوخلیفہ تھے
ایک مرتبہ سیکڑوں بلکہ ھزاروں شاگردوں مریدین وخلفا کے ساتھ سفر پر تھے کہ عیسائیوں کی ایک بستی کے قریب سے گزر ھوا اس بستی کے اوپر صلیبیں لٹک رہیں تھیں، شیخ کہ دل میں ایا کہ یہ لوگ کتنے بے عقل ھیں کہ صلیب کی پوجا کرتے ھیں – تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک کنوئیں پر عصر کی نماز ادا کرنے کیلئے وضو کرنے گئے،
وہاں کسی لڑکی پر نظر پڑی ،شیخ اس لڑکی پر فریفتہ ھو گئے دل قابو مین نہ رھا اور شیخ
اپنے مریدین سے کہنے لگے ،
جاو وآپس چلے جاو،
میں ادھر جاتا ہوں جدھر یہ لڑکی گئی ھے ،
میں اس کی تلاش میں جاوں گا….
مریدین نے رونا شروع کردیا، کہنے لگے! ” شیخ آپ کیا کررہے ہیں؟ شیخ کھنے لگے تم اپنے گھروں کو جاؤ مین اس لڑکی کے بغیر نہیں رہ سکتا—
یہ وہ شیخ تھے جنہیں ایک لاکھ حدیثیں یاد تھیں،
قرآن کے حافظ تھے،
سینکڑوں مسجدیں ان کے دم قدم سے آباد تھیں… انہوں نے کہا: ” میرے پلے کچھ نہیں جو میں تمہیں دے سکوں ، اب تم چلے جاو-” شیخ ادھر بستی میں چلے گئے….
کسی سے پوچھا یہ لڑکی کہاں کی رہنے والی ہے؟ اس نے کہا ”یہ یہاں کے نمبردار کی بیٹی ہے۔” اس سے جاکر ملے ، کہنے لگے : کیا تم اس لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کرسکتے ہو؟
اس نے کہا:” یہاں رہو، ہماری خدمت کرو، جب آپس میں موافقت ہوجائے گی، تو پھر آپ کا نکاح کردیں گے، انہوں نے کہا؛ ٹھیک ہے….
وہ کہنے لگا آپ کو سوروں کا ریوڑ چرانے والا کام کرنا پڑے گا…
شیخ اس پر بھی تیار ہوگئے، اور کہنے لگے کہ ہاں میں خدمت کرونگا…اب کیا ہوا؟
صبح کے وقت سور لیکر نکلتے سارا دن چرا کر شام کو وآپس آیا کرتے…
ادھر مریدین جب وآپس گئے،اور یہ خبر لوگوں تک پہنچی تو کئی لوگ صدمہ سے بیہوش ہوگئے..
لوگ حیران تھے کہ ”اے اللّٰہ! ایسے ایسے لوگوں کیساتھ بھی تیری بے نیازی کا یہ معاملہ ہوسکتا ہے، ایک سال اسی طرح گزر گیا….
حضرت شبلی ؒ رحمة الله عليه سچے مرید تھے، جانتے تھے کہ میرے شیخ صاحب استقامت تھے، سوچا اس معاملے میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوگی، ان کے دل میں بات آئی کہ میں جاکر حالات معلوم کرو،
چنانچہ اس بستی میں آئے اور لوگوں سے پوچھا کہ میرے شیخ کدھر ہیں؟
کہا:
تم فلاں
جنگل میں جاکردیکھو، وہاں سورچرارہےہونگے….
جب وہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ…
وہی عمامہ،
وہی جبہ، اور
وہی عصا….
جس کو لیکر وہ جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے ،آج اسی حالت میں سور چرا رہے ہیں…
شبلی رحمتہ اللّٰہ قریب گئے اور پوچھا : حضرت آپ تو قرآن کے حافظ تھے … آپ بتائیے کہ کیا قرآن آپ کو یاد ہے؟
فرمانے لگے :”قرآن یاد نہیں ”
پھر پوچھا حضرت ! کوئی ایک آیت یاد ہے؟
سوچ کر کہنے لگے…. ”مجھے ایک آیت یاد ہے”
پوچھا کونسی آیت ؟
کہنے لگے…”ومن یھن اللّٰہ فما له من مکرم””
ترجمہ: ”جسے اللّٰہ ذلیل کرنے پر آتا ہے اسے عزتیں دینے والا کوئی نہیں”
پورا قرآن بھول گئے اور صرف ایک آیت یاد رہی جو کہ ان کے اپنے حال سے تعلق رکھتی تھی۔
حضرت شبلی رحمة اللّٰہ علیہ رونے لگے کہ حضرت کو صرف ایک آیت یاد رہی ….
پھر آپ نے ان سے پوچھا حضرت آپ تو حافظ الحدیث تھے،
کیا آپ کو حدیثیں یاد ہیں؟
فرمانے لگے ایک یاد ہے….
”من بدل دینہ فاقتلو” …..
”جو دین کو بدل دے اسے قتل کردو۔”
یہ سن کر شبلی ؒپھر رونے لگےتو ساتھ انھوں نے بھی رونا شروع کردیا…..
کتابوں میں لکھا ہے ہے کہ شیخ روتے رہے اور روتے ہوئے انھوں نے کہا؛
اے اللّٰہ! ”میں آپ سے یہ امید تو نہیں کرتا تھا کہ مجھے اس حال کو پہنچا دیا جائے گا، رو بھی رہے تھےاور یہ فقرہ بار بار دہرا بھی رہے تھے….
اللّٰہ تعالٰی نے شیخ کو توبہ کی توفیق عطا فرمادی اور ان کی کیفتیں بھی وآپس لوٹادیں….
پھر بعد میں شبلیؒ نے پوچھا، یہ سارا معاملہ کیسا ہوا؟
فرمایا: ” میں بستی کے قریب سے گزر رہا تھا، میں نے صلیبیں لٹکی ہوئی دیکھیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ
یہ کیسے کم عقل ،بیوقوف لوگ ہیں ،جو اللّٰہ کیساتھ کسی کو شریک ٹہھراتے ہیں ..”
اللّٰہ تعالی نے میری اس بات کو پکڑ لیا ….
کہ عبداللّٰہ! اگر تم ایمان پر ہو تو کیا یہتمہاری عقل کی وجہ سے ہے…
یا میری رحمت کیوجہ سے ہے؟
یہ تمہارا کمال نہیں ہے….
یہ تو میرا کمال ہے کہ میں نے تمہیں ایمان پر باقی رکھا ہوا ہے…
پس اللّٰہ تعالٰی نے ایمان کا وہ معاملہ میرے سینے سے نکال لیا…کہ اب دیکھتے ہیں کہ تم اپنی عقل پر کتنا ناز کرتے ہو..
تم نے یہ لفظ کیوں استعمال کئے؟
تمہیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ اللّٰہ نے انھیں محروم کردیا ہے….تم نے اپنی عقل اور ذہن کیطرف نسبت کیوں کی؟
اللّٰہ اکبر….!
لہٰذا ہر خیروبھلائی اور نیکیوں کی توفیق کو محض اللہ کا عطیہ اور فضل وکرم سمجھ کر اسکا شکراداکرنا چاھیئے اور کبھی ذھن کسی گوشے میں بھی اسکا گمان وخیال نہیں آنا چاھیئے کہ اس مین میرے عقل وعمل کا کوئی بھی دخل ھے.