اہل تشیع کو تین دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے : شیعہ، رافضی اور امامی۔
شیعہ کا مطلب ہے کسی کی حمایت کرنے والا یا کسی کی جماعت کا آدمی۔ یہ دراصل شیعہِ علی کا اختصار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہ میں ہم اور اہلسنت کہلوانے والوں کی کثیر اکثریت بھی سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی کی حامی ہے اور اصحابِ جمل اور شامی باغیوں کے مقابل سیدّنا علی کو ہی برحق مانتی ہے، بلکہ ائمہ نے اہلسنت ہونے کی جو شرطیں بیان کی ہیں ان میں علی بن ابی طالب کو چوتھا خلیفہ راشد اور خلیفہِ برحق ماننا بھی ایک شرط ہے۔ گویا ہر حقیقی سُنّی شیعہِ علی بھی ہوتا ہے۔ لہذا شیعانِ علی تو ہم بھی ہیں۔
دوسرا لفظ ہے رافضی۔ اس کا مطلب ہے مسترد کرنے والا۔ جو لوگ پہلے تین خلفا کو کافر سمجھتے ہیں اور خلافت کو غیر شرعی اور غاصبانہ سمجھ کر مسترد کرتے ہیں، وہ رافضی ہیں۔ اثنا عشری اور دیگر شیعوں کی بڑی تعداد پہلے تین خلفا کو کافر نہیں سمجھتی لیکن ان کو خلیفہ بلا فصل سمجھتی ہے زیدی شیعوں میں تو ایسے لوگ موجود ہیں جو پہلے تین خلفاء کو غاصب نہیں سمجھتے لیکن اثناعشری شیعہ سب کے سب ایسا ہی سمجھتے ہیں، رافضی لفظ کے ساتھ نفرت، حقارت اور منفیت جُڑ چکی ہے، اتحادِ اُمت اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ہم عموماً اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔
تیسرا لفظ امامی ہے۔ میں اکثر یہی لفظ استعمال کرتا ہوں کیونکہ ہمارے یعنی سُنّی المسلک شیعوں اور مولا علی ع کو مامور و منصوص من اللہ، معصوم عن الخطا اور بلافصل خلیفہ و امام سمجھنے والے شیعوں کے درمیان یہی لفظ بہترین فرق بھی کرتا ہے اور یہ لفظ نفرت آمیز یا منفیت کا حامل بھی نہیں ہے۔ ہمارا اہل تشیع یا اصطلاحاً شیعہ کہلانے والے گروہ سے بنیادی فرق مامور و منصوص من اللہ اور معصوم عن الخطاء امامت کا ہی ہے، سیدّنا علی رض اور ان کے بیٹوں کے برحق ہونے کا نہیں۔ جبکہ پہلے تین ُخلفاء بارے، ہمارا ان سے اختلاف اسی اختلاف کی پیداوار ہے، اپنے آپ میں بنیادی اختلاف نہیں ہے۔
احمد الیاس