صحیح بخاری پر نقد اور دفاع

صحیح بخاری پر نقد اور اس کا دفاع کرنے والے دونوں طبقات رواہ کی بحث میں الجھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔امر واقعہ یہ ھے کہ یہ ایک ایسا منہج بحث ھے جس کے سوتے مدتوں پہلے خشک ہو گئے ۔ایسے افراد جو ہر نوع کی جرح سے ماورا ہوں شاید انگلیوں پر گنے جاسکتے ہوں ورنہ ابوحنیفہ شافعی اور بخاری تک پر جرح موجود ھے ۔جب آپ کسی راوی کو ثقہ یا مجروح قرار دیتے ہیں تو آپ صرف ان آراء کو ترجیح دیتے ہیں جو آپ کی اندر کی آواز سے ہم آھنگ ھیں ۔مثلاتمنا عمادی حبیبالرحمان کاندھلوی عمر عثمانی شبیر احمد میرٹھی اور ان کے جواب میں اہل حدیث علماء کا تمام لٹریچر دوسروں کے چبائے ہوئے لقموں کی جگالی کے سوا کچھ نہیں ۔جرح و تعدیل کا علم ایک خاص زمانے تک ایک مہتم بالشان علم رہا ۔اس کے مطابق ائمہ جرح و تعدیل نے اپنی آراء قلم بند کر دیں اب انہیں تبدیل کیا جاسکتا ھے نہ ان پر کسی قسم کا اضافہ کیا جاسکتا ھے ۔ کسی بھی ایسے شخص کو جو جرح و تعدیل دونوں “اعزازات”سے نوازا گیا ھے آپ کسی خارجی دلیل سے کسی ایک پہلو کو تر جیح نہیں دے سکتے ۔علامہ البانی نے جو کچھ کیا ھے ان کے تمام تر احترام کے باوجود تشتت وافتراق میں اضافہ ہی فرمایا ھے ۔اور مختلغف آراء میں سے ایک رائے کو ترجیح دے دی ھے ۔لیکن ایسے ہر شخص سے یہ سوال کیا جا سکتا ھے کہ ہم آپ کی رائے ہی کیوں مانیں دوسری کو رد کرنے کی وجوہ ؟

جن لوگوں کی Grooming حنفی منہج پر ہوئی ھے وہ مراسیل سے بھی استدلال کر لیتے ہیں اور جرح و تعدیل میں اقوال کا طومار کھڑا کرنے کے بجائے درایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔۔ان کے ہاں پوری اسلامی شریعت کی عمارت کلیات پر ایستادہ ھے اور ان آیات و روایات کو اساس قرار دیا جاتا ھے جو کلیات بیان کرتی ہیں ان کے علاوہ جو آیات و روایات ہیں وہ منسوخ ہوتی ہیں یا موول یعنی تقیید تخصیص استثنا مخلص دفع حرج وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں ۔

یاد رھے کہ کسی حدیث کو ارشاد نبوی مان کر بلا تاویل اسے مسترد کر دینا انکار حدیث ھے ورنہ اس دھرتی پر کوئ ایک فرد بھی حدیث کو ماننے والا نہیں ملے گا ۔

طفیل ہاشمی