“صرف علم”

رعایت اللہ فاروقی

صلاح الدین کو اب تو فارغ التحصیل ہوئے بھی چھ سال ہوگئے۔ لیکن جب یہ پہلی بار کسی مدرسے بطور طالب علم جا رہا تھا تو جو سب سے اہم نصیحت اسے کی تھی، وہ یہ تھی کہ کبھی کبھار کوئی استاد سبق پڑھانے کے بجائے کسی بہانے سے وعظ شروع کردے گا اور یہ وعظ پورے پیریڈ پر محیط ہوگا۔ پیریڈ پورا ہوگا تو وہ اچانک گھڑی کو دیکھ کر کہے گا

“ارے ! ! ! وقت گزرنے کا تو پتہ ہی نہ چلا، سبق تو آج رہ گیا”

اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج تمہارے یہ استاد مطالعے کے بغیر مدرسے چلے آئے تھے۔ خوب اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو کہ جب بھی ایسا ہو۔ جو بھی استاد ہو، کتنا ہی پرکشش وعظ کیوں نہ کرکے جائے۔ تم نے اس وعظ کے ہر لفظ اور ہر حرف کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر پھینکنا ہے۔ تم ایسے کسی بھی وعظ کے ایک جملے کو بھی اہمیت نہیں دوگے۔ تمہارے اور استاد کے درمیان ہمیشہ ایک ہی رشتہ ہوگا اور وہ ہوگا کتاب اور اس کے سبق کا رشتہ۔یہ چونکہ مقیم طالب علم نہ تھا سو ظہر کے بعد گھر آجاتا۔ ایک دن ہم سب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اس نے پوچھا

“ابو ! یہ اہلحدیث مسلمان کیوں نہیں ہوتے ؟”

یہ سنتے ہی میرا پورا وجود خطرے کے سائرن سے گونج اٹھا۔ ہاتھ میں پکڑا نوالہ واپس پلیٹ میں رکھ کر پوچھا

“کس نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہوتے ؟”

“ہمارے استاد مفتی نعیم صاحب آج سبق کے بجائے کچھ بیان سا فرما رہے تھے تو اس میں انہوں نے کہا کہ یہ جو اہلحدیث ہوتے ہیں یہ تو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہوتے”

اب کھانا کون کھاتا اور کیسے کھاتا ؟۔ فون اٹھایا اور مہتمم صاحب کو کال ملائی جو میرے بہت اچھے دوست بھی تھے۔ انہوں کال ریسیو کی تو میں نے سلام کے چکر میں پڑے بغیر سیدھا سوال کیا

“یہ مفتی نعیم کون ہے ؟ اور اس وقت کہاں ملے گا ؟”

انہوں وجہ پوچھی تو میں نے اپنا سوال ہی دہرا دیا۔ انہوں نے پھر وجہ پوچھی تو میں نے “مقصد” وہی بتایا جو ایسے مواقع پر غصے سے آگ بگولہ ہر پختون باپ بتایا کرتا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے کال کاٹ دی

“میں آ رہا ہوں”

مدرسے پہنچا تو مہتمم صاحب گیٹ پر ہی کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مدرسے کی چار دیواری کے باہر ہی ایک جانب لے گئے اور میری داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے

“تم مجھے بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے ؟”

میں نے بتادیا کہ کیا ہوا ہے۔ اور ساتھ ہی سخت غصے کے عالم میں کہا

“ہر مدرسے میں جس دن جو استاد بغیر مطالعہ کے آجائے وہ طلبہ کے کا ذہن تباہ کرنے والا وعظ جھاڑنا شروع کردیتا ہے۔ آپ لوگ اس چیز کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کرتے ؟ پابندی کیوں نہیں لگاتے اساتذہ پر کہ جس دن مطالعہ نہ ہو، کلاس میں جانے کی اجازت نہ ہوگی؟”

وہ چونکہ میرے بہت ہی مہربان دوست ہیں، سو مجھے ٹھنڈا کرتے ہوئے فرمایا

“آئندہ یہاں ایسا ہی ہوگا۔ اور یہ نعیم کو بھی میں خود دیکھ لوں گا۔ تم بے فکر ہوکر گھر جاؤ”

سو میں گھر آیا، اور صلاح الدین سے کہا

“جب میں نے پہلے ہی دن سمجھایا تھا کہ تم سبق کے علاوہ استاد کی کوئی بھی بات ذہن میں نہیں رکھوگے تو پھر یہ آج والی بات کیوں رکھی ؟”

اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اور الحمدللہ دورہ حدیث تک پھر اس نے کسی ایک بھی استاد کے وعظ کو دل و دماغ میں جگہ نہ دی۔ اسے ہمیشہ کے لئے یہ بات سمجھا دی تھی کہ تمہارا خطیب، واعظ، لیڈر اور امیر سب صرف میں ہوں۔ نصیحت وہی ہے جو میں کروں، وعظ وہی ہے جو میں کہوں، اور کمانڈ وہی ہے جو میں دوں۔ سو اس معاملے میں یکسو رہو۔ ورنہ مدارس میں اساتذہ کا پیریڈ کے دوران جھاڑا وعظ کس درجے کی تباہی مچاتا ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے اپنے اساتذہ کے وعظ خوب یاد ہیں۔ اور مجھے معلوم ہے کہ ان میں کیسی بے سر و پا باتیں ہمارے دماغوں میں انڈیلی گئی تھیں۔ جس دن سپاہ صحابہ کا ذہن رکھنے والا استاد بغیر مطالعہ کے آتا وہ کافر کافر کا بیج دماغ میں بو کر جاتا۔ جس روز جمعیت سے متاثر استاد بغیر مطالعہ کے آتا وہ سپاہ صحابہ پر لعنت بھیج کرفضل الرحمن کی عظمت دماغ میں بٹھانے بیٹھ جاتا تھا۔ جس دن تبلیغی استاد بغیر مطالعہ کے آتا وہ ان دونوں پر لعنت بھیج کر رائیونڈ جانے کی تلقین شروع کردیتا۔ اور ان کے بعد مفتی رشید احمد کے خلیفہ بھی کسی دن بغیر مطالعہ کے آجاتے تو وہ ان تینوں کی نفی کرتے ہوئے ان “حضرت والا” کے فضائل و مناقب بیان کرنا شروع کردیتے جنہیں دس سال بعد وہ خود بھی لڑ کر چھوڑ گئے۔

سو دماغ ہمارا ایک ہوتا اور اس میں براستہ وعظ اپنا اپنا ذوق و نظریہ ٹھونسنے کے لئے سات لوگ دستیاب ہوتے۔ ان زہریلے تجربات سے گزرنے والا باپ کیسے برداشت کر لیتا کہ یہی کچھ اس کے بیٹے کے دماغ کے ساتھ بھی ہو ؟ یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی روز اس پر بالکل واضح کردیا کہ سبق کے سوا استاد کی کسی بات کو رتی برابر بھی اہمیت نہ دینا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ دورہ حدیث کرکے باہر آیا تو مکمل یکسو تھا۔ اپنے اساتذہ سے وہ سبق کے سوا کچھ نہ لایا تھا۔ نہ وہ مدرسے سے سپاہ صحابہ لایا، نہ جمعیت لایا، نہ عسکری تنظیم لایا، نہ تبلیغی جماعت لایا، اور نہ ہی کوئی پیر شیر لایا۔ صرف علم کے لئے بھیجا تھا، صرف علم ہی لے کر آیا !