موصوف کے بارے میں جاننا چاہیں تو
کوڑھ کی کاشت
پڑھیں
میری معلومات کی حد تک ان کے دور ہمایونی اور عہد فرخ فال سے پہلے ریاستی سطح پر مالی کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں تھا
بھٹو کے خلاف کتنے ہی وائٹ پیپرز شائع ہوئے، کہیں مالی کرپشن نہیں ملی
ان سے پہلے علماء کرام اور مشائخ بالعموم حق گوئی اور سیاسی اور سماجی خرابیوں پر تنقید اپنا فرض سمجھتے تھے
اس طبقے کو حج، عمرے، مدارس کے لئے امداد، کانفرنسز میں شرکت کے لئے دعوت نامے اور فائیو سٹار ہوٹلز کا چسکہ لگا کر اپنا بنا لیا گیا
صحافیوں کو سرعام کوڑے لگوائے گئے
منشیات کا بزنس پروموٹ کیا گیا
اسلحہ عام ہو گیا
سماجی جرائم کی شرح آخری حدوں کا چھونے لگی
اتنی بہت سی خرابیوں کے باوجود
ان کے عہد کا سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ
جس طرح بھٹو عہد نے سوشلزم کا کرشمہ ختم کر دیا
اسی طرح
ضیاء الحق عہد نے اسلام کے نام پر بلیک میلنگ کو بے اثر کر دیا
انہوں نے ایک ریفرنڈم کروایا تھا
کیا آپ اسلام چاہتے ہیں
اگر ہاں تو
میں، ضیاء الحق اگلے پانچ سال کے لئے آپ کا صدر منتخب ہو گیا ہوں
میں اس روز ایک پبلک ٹرانسپورٹ سے کہیں جا رہا تھا. راستے میں گاڑی پانچ جگہ رکوائی گئی اور
پاکستان کے محافظوں نے ہر جگہ مسافروں کو اتار کر ان سے ووٹ دلوائے
شاید میرے چہرے پر لکھا ہوا تھا کہ
یہ بندہ ووٹ نہیں دے گا
مجھے ایک بار بھی کسی نے نہیں کہا
حضرت ضیاء الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو آئینی طور پر فرقہ واریت میں تبدیل کر کے ایک طرف پاکستان میں اسلامی نظام کا راستہ ہمیشہ کے لئے روک دیا اور دوسری طرف اسلام کے نام پر مسلمانوں کے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے جواز کی راہیں کھول دیں.
(کوڑھ کی کاشت: حقی حق)
مرحوم ڈاکٹر محمود غازی جنرل ضیاء الحق کے قریب تھے، ایک بار جنرل صاحب کی بات نقل کی کہ انہوں نے کہا “ایسا کلا ٹھونک جاں گا جنوں کدی کوئی پٹ نہیں سکے گا”
پاکستان میں مرحوم جنرل ضیاء الحق نے فرقہ واریت کو آئینی حیثیت دی اور آئین میں فرقوں کے اعتبار سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سیٹس رکھیں
جس کے نتیجے میں کونسل کی ممبرشپ کے حصول کے لیے فرقہ پرستی میں شدت پیدا ہوئ. اس سے پہلے قادیانیوں کے سوا سب مسلمان تھے
آج کے پاکستان کی کسی بھی خرابی کو اٹھائیں
اس کا سلسلہ ضیائی عہد سے ملتا ہے
لیکن خلق خدا کو بے وقوف بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا
طفیل ہاشمی