طٰہ حسین اور الفتنة الکبری

تاریخ اور عقیدت کو خلط ملط کرنے سے تاریخ کی تخریب ہوتی ہے اور عقائد ذاتی خواہشات پر مستحکم ہو جاتے ہیں ۔ اوائل اسلام میں تنازعات کو معروضی انداز میں دیکھنے کے لیے بے لاگ تاریخی تجزیہ بہت ضروری ہے ۔ اس امر میں تحقیق کا حق مصر کے طٰہ حسین نے الفتنة الکبری لکھ کر اور برصغیر کے مولانا عبد الرشید نعمانی نےرسالہ حضرت علی اور قصاص عثمان لکھ کر ادا کیا ۔ یہی کلمہ حق مولانا مودودی اور غلام علی نے بھی بلند کیا۔

طہ حسین کے نقطہ نظر سے احتجاج کرنے والوں یا باغیوں کا موقف درست تھا اور حضرت عثمان سے خلافت سے دستبرداری کے مطالبے میں وہ برحق تھے، جبکہ حضرت عثمان خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرتے ہوئے یہ دعوی کر رہے تھے کہ انھیں اللہ نے خلافت کی خلعت پہنائی ہے، اس لیے وہ اسے نہیں اتاریں گے۔ طہ حسین قتل عثمان کی وجوہات میں ایک اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ انھوں نے باغیوں کا مطالبہ ماننے کے بجائے عراق اور شام میں اپنے گورنروں کو مدد کے لیے فوج بھیجنے کے خطوط لکھ دیے تھے جس پر باغیوں میں سے چند لوگوں نے حضرت عثمان کو قتل کردیا۔

مولانا نعمانی مرحوم اس تفصیل تک نہیں جاتے، لیکن قصاص کے معاملے میں وہ حضرت معاویہ کے موقف کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ان کی ترتیب مقدمات یہ ہے کہ

اول تو متعین طور پر قاتلین کا پتہ ہی نہیں تھا۔چند لوگ تھے جو رات کے اندھیرے میں قتل کر کے یا تو فرار ہو گئے اور یا ایک دو حضرت عثمان کے غلاموں کے ہاتھوں مارے گئے۔ یوں معاملہ وہیں ختم ہو گیا تھا۔

ثانیا، محاصرہ کرنے والے باغیوں کو قتل کے الزام میں شریک نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ انھوں نے تو قتل نہیں کیا تھا (البتہ چند انتہا پسندوں نے اس محاصرے میں قتل کا انتہائی اقدام کیا)۔ چند لوگوں کے جرم کی بنیاد پر ہزاروں محاصرین کو شریک قتل نہیں قرار دیا جاسکتا۔ حضرت عثمان نے بھی تو خونریزی سے بچنے کے لیے کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا تھا، تو حضرت علی کیسے بلا جرم یا بغیر ثبوت کے پورے گروہ کے خلاف اقدام کر دیتے؟

ثالثا، اگر باغیوں کا کوئی جرم تھا بھی تو حضرت عثمان کے خلاف بغاوت کی حد تک تھا۔ جب انھوں نے حضرت علی کی بیعت کر لی تو وہ بغاوت سے تائب ہو گئے اور توبہ کرنے کے بعد باغیوں کو شرعا کوئی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔

رابعا، اگر بالفرض قاتل معلوم بھی تھے تو ان کے خلاف حضرت عثمان کے اولیاء نے حضرت علی کی عدالت میں کوئی دعوی دائر نہیں کیا تھا، اس لیے حضرت علی ازخود کیسے ان کے خلاف اقدام کر سکتے تھے؟ حضرت معاویہ کے دور ملوکیت میں بھی یہ مقدمہ کسی عدالت میں پیش نہ کیا گیا ۔

خامسا، یہ سب کچھ حضرت عثمان کے دور میں ہوا تھا اور حضرت علی پر اپنے دور میں پچھلے خلیفہ کے دور کے کسی واقعے پر ایکشن لینے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔

مولانا مرحوم اس نکتے کی بالکل نفی کرتے ہیں کہ حضرت علی کے، قاتلین عثمان سے قصاص نہ لینے کی وجہ ان کے اقتدار کا اس وقت غیر مستحکم ہونا تھا۔

اس پورے تجزیے میں جو معروضی واقعات بیان ہوئے ہیں وہ شاید بعض رومانویت پسند معتقدین اور ناصبی مستشرقین کے لیے خوشگوار نہ ہوں۔ اللہ تعالٰی صحیح فہم نصیب فرمائے۔ آمین