سیدّنا عبداللٰہ بن مسعود رضی اللٰہ عنہ
عبداللٰہ بن مسعود کے سابقون الاولون میں سے ہونے پر تو مکمل اتفاق ہے، جبکہ کئی روایات کے مطابق عبداللٰہ ابن مسعود سے پہلے صرف پانچ لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ آپ رض ان اصحاب میں بھی شمار کیے جاتے ہیں جو سیدّنا ابوبکر صدیق رضی اللٰہ عنہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ آپ رض قریشی نہیں بلکہ تمیمی تھے اور آپ رض کا خاندان غلام تو نہیں تھا لیکن مکہ کے محنت کش اور کمزور طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسے خاندان عموماً کسی قریشی خاندان کے حلیف بن جاتے تھے اور آزاد ہونے کے باوجود نسل در نسل اسی خاندان کی خدمت کرتے تھے اور بدلے میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا قریشی خاندان ان کے سماجی تحفظ کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ عبداللہ بھی ایک ایسے قریشی خاندان کی جانور چراتے تھے جس کا حلیف ان کا اپنا خاندان تھا۔
عبداللٰہ بن مسعود کا رنگ سانولا اور قد چھوٹا تھا اور جسم بہت دُبلا پتلا۔ ان کی ٹانگیں اتنی پتلی تھیں کہ ایک دن رسول اللٰہ کے لیے مسواک توڑنے کے لیے درخت پر چڑھے تو ان کی ٹانگیں تہبند سے نظر آنے لگیں اور صحابہ ہنسنے لگے۔ سرکار دو عالم ص نےفرمایا کہ تم ان ٹانگوں پر ہنستے ہو لیکن یہ ٹانگیں روز محشر احد پہاڑ سے بھی بھاری ہوں گی۔ خاندانی پس منظر اور جسمانی وجاہت متاثر کن نہ ہونے کے باوجود عبداللٰہ بن مسعود میں بلا کی خود اعتمادی تھی۔ رسول خدا کی زندگی میں ایک بھی ایسی جنگ نہیں جس میں آپ رض نے شرکت نہ کی ہو یا نمایاں نہ رہے ہوں۔ آپ رض ہمیشہ عمدہ اور صاف ستھرے سفید کپڑے پہنتے تھے، آپ کے بال قدرے لمبے تھے جنہیں بالکل صاف ستھرا اور سجا بنا کر رکھتے تھے اور ایک خاص خوشبو کا استعمال کرتے تھے جس کے سبب انہیں اندھیرے میں بھی پہچان لیا جاتا تھا۔ آپ رض بہت سماجی میل جول رکھنے والے، لوگوں سے بات چیت کے فن میں ماہر اور خوش اخلاق بھی تھے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اس حوالے سے وہ رسول خدا سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
اس خوداعتمادی کی وجہ غالباً آپ کی حیران کن ذہانت تھی۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو لڑکپن میں تھے اور آنحضرت صلی اللٖہ علیہ وسلم جب تک حیات تھے، عبداللہٰ بن مسعود جوان لڑکے ہی تھے۔ لیکن سرکار ص نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ عبداللٰہ میرے اصحاب میں قرآن کے چار بڑے عالموں میں شامل ہے۔ عبداللٰہ فرماتے ہیں کہ مجھے ستر سورتیں براہ راست رسول خدا نے پڑھائیں۔ ایک روز سرکار ص نے عبداللہٰ کو حکم دیا کہ قرآن کی تلاوت کرو۔ عبداللہٰ رضی اللٰہ عنہ نے فرمایا کہ صاحبِ قرآن کے ہوتے ہوئے میں کیسے تلاوت کرسکتا ہوں ؟ سرکار ص نے فرمایا کہ مجھے قرآن دوسروں کی زبان سے سننا اچھا لگتا ہے۔ عبداللٰہ رض نے تلاوت کی اور کرتے رہے یہاں تک کہ مصطفیٰ جانِ رحمت کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
جناب انس رضی اللٰہ عنہ اور جناب بلال رضی اللٰہ عنہ اور جناب علی رضی اللٰہ عنہ کے ساتھ عبداللہٰ بن مسعود ان نوجوانوں میں سے تھے جو آقا کریم کی روزمرہ معاملات میں خدمت پر مامور تھے۔ آپ ص کی مسواک تیار کرنا، بستر لگانا، نیند سے جگانا، وضو اور غسل کے لیے پانی تیار کرنا، بوقت غسل پہرا دینا، سواری تیار کرنا اور آپ ص کی صحت اور سلامتی وغیرہ کا خیال رکھنا ۔۔۔ یہ سب یہی چار پانچ نوجوان کرتے تھے جن میں عبداللٰہ بھی شامل ہیں۔ لہذا آپ کو پیغمبر سے خاص قربت حاصل تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللٰہ سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے آٹھ صحابہ میں سے ہیں۔ آپ رض کو رسول کریم کا راز دار بھی کہا جاتا تھا۔
مکی دور میں آپ نے بہت سختیاں بھی برداشت کیں۔ جب قریش نے یہ پالیسی اختیار کی کہ سب سے پہلے کمزور اور غریب مسلمانوں کو ڈرایا جائے تو اس کا اثر آپ رض پر بھی پڑا۔ آپ کی والدہ اور بھائی بھی اسلام قبول کرچکے تھے۔ آپ کا خاندان جس خاندان کا حلیف تھا اس نے آپ کے کنبے سے قطع تعلق کرلیا لہذا اب آپ کو کوئی سماجی تحفظ بھی حاصل نہ تھا۔ ابوجہل نے ایک دن آپ پر تشدد کیا (روایات میں نوچنے اور مُکا مارنے کے الفاظ ہیں)۔ اسی طرح ایک دن صحابہ کو خیال آیا کہ قریش شاید اس لیے بات نہیں سنتے کہ انہیں قرآن واضح طور پر سنایا نہیں گیا لہذا انہیں قرآن پڑھ کر سنانا چاہیے۔ عبداللٰہ نے اس کام کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا۔ صحابہ نے انہیں یاد دلایا کہ ان کو اب کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے تو آپ رض نے فرمایا “اللٰہ میری حفاظت کرنے والا ہے”۔ آپ کعبہ کے پاس گئے اور بلند آواز میں قرآن پڑھنا شروع کیا۔ مشرکین نے انہیں مارنا شروع کردیا۔ جب آپ واپس صحابہ کے پاس آئے تو آپ کا چہرہ زخمی تھا لیکن آپ پرجوش تھے۔ فرمایا “مجھے ا اللٰہ کے دشمنوں سے کبھی اتنی نفرت نہیں ہوئی جتنی آج ہورہی ہے اور اگر تم لوگ کہو تو میں کل بھی بالکل وہی کروں گا جو آج کیا”۔ صحابہ نے کہا کہ اتمامِ حجت ہوچکی ہے اور اب اس کی ضرورت نہیں۔ آخر آپ کو درپیش خطرات اور مصائب کے پیش نظر آپ کو حبشہ ہجرت کا حکم ہوا۔ حبشہ سے واپسی کے بعد آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق اس موقع پر آپ کو معاذ بن جبل رض اور بعض کے مطابق زبیر بن العوام رض کا بھائی بنایا گیا۔
ابوجہل کے بارے میں حدیث میں ہے کہ اس کی حیثئیت میری امت کے حوالے سے ویسی ہی ہے جیسی قومِ موسیٰ کے ضمن میں فرعون کی۔ بدر میں فتح کے بعد آنحضرت ص نے حکم دیا کہ ابوجہل کا سر میرے پاس لایا جائے۔ عبداللٰہ جب ابوجہل کے قریب پہنچے تو اس کی ٹانگیں کٹ چکی تھیں اور وہ شدید زخمی تھا لیکن اس کی سانسیں باقی تھیں۔ عبداللٰہ اس کے سینے پر کھڑے ہوگئے۔ ابوجہل کا جاہلانہ خاندانی تفاخر اس قدر شدید تھا کہ اسے اس بات پر بھی ناگواری ہوئی کہ ایک ایسے خاندان کا کوتاہ قد چرواہا اسے قتل کرے جسے وہ اپنی جاہلیت کے سبب حقیر جانتا تھا۔ اس موقع پر ابوجہل اور عبداللٰہ کے درمیان دل چسپ مکالمہ بھی سیرت اور تاریخ کی کتب میں ہے جو اختصار کے پیش نظر چھوڑا جارہا ہے۔ بہرحال، یہ سعادت آپ رض کے ہاتھ آئی کہ اُمت محمدیہ کے فرعون کا سر کاٹ کر آپ رض ہی سرکار ص کے پاس لے کر گئے۔
سیدّنا عمر فاروق رضی اللٰہ عنہ عبداللٰہ رضی اللٰہ عنہ کے انتہائی قدر دان تھے اور انہیں علم کا صندوق کہتے تھے۔ چنانچہ اپنے دور حکومت میں آپ نے عبداللٰہ کو قاضی القضات، امین المال اور معلم بنا کر کوفہ بھیجا۔ اس حیثئیت میں آپ نے وہاں جاکر بہت زبردست کام کیا اور ایک پورے مکتب کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر (دو تین نسلوں کے بعد) فقہ حنفی کی بنیاد بنا۔ جسے آج ہم فقہ حنفی کہتے ہیں یہ ایک لحاظ سے مکتبِ عبداللٰہ بن مسعود ہی ہے اور سیدنا فاروق اعظم رض سے بھی اسے خاص نسبت ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ علمی لحاظ سے سے عبداللٰہ بن مسعود کے پڑپوتے ہیں (ابو حنیفہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان ابراہیم نخئی کی شاگرد تھے جو خود عبداللٰہ بن مسعود کے شاگرد تھے)۔ نیز یہ کہ حنفی اجتہادی میتھڈولوجی بھی وہی ہے جو سیدّنا عمر فاروق اور عبداللٰہ بن مسعود کا علمی و اجتہادی مزاج تھا۔
عمر فاروق رضی اللٰہ عنہ نے جب سابقون الالون کے وظائف مقرر فرمائے تو عبداللٰہ رض ان اصحاب میں تھے جن کا وظیفہ اہلبیتِ رسول کے بعد سب سے زیادہ مقرر کیا گیا۔ چھ ہزار درہم جیسی خطیر پینشن مقرر ہونے کے باوجود آپ رض کا معیار زندگی بالکل وہی رہا۔ صرف یہ ہوا کہ انہیں مزدوری کی ضرورت نہ رہی اور وہ سارا وقت اپنے ہزاروں شاگردوں کو تعلیم دینے میں صرف کرنے لگے، لیکن بالکل بنیادی ضرورتیں پوری کرکہ یہ ساری رقم آپ ضرورت مندوں بالخصوص اپنے غریب شاگردوں میں تقسیم کردیتے تھے۔
سیدّنا ابنِ مسعود کو بھی فاروق اعظم سے بہت محبت تھی جس کا اظہار ان کے اقوال میں ہوا ہے اور شہادتِ عمر رض کے بعد وہ انہیں یاد کرکہ اکثر غمگین ہوجاتے تھے، لیکن آپ نے سیدّنا عثمان رض کے دور میں بھی کام جاری رکھا اور برسوں تک نئے خلیفہ سے وفادار رہے۔ لیکن آخری برسوں میں بدقسمتی سے حالات بگڑ گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کوفہ کے گورنر سیدّنا سعد بن ابی وقاص رضی اللٰہ عنہ نے بیت المال سے کچھ قرض ذاتی ضرورت کے لیے لیا اور وقت پر واپس نہیں کرسکے۔ عبداللٰہ بن مسعود کی ذمہ داریوں میں بیت المال کی حفاظت بھی تھی لہٰذا آپ سعد رض سے سخت ناراض ہوئے اور دونوں بزرگ صحابہ میں تلخی پیدا ہوگئی۔ عثمان رض کو خبر ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور سعد رض کو ہٹا کر اپنے رشتہ دار ولید بن عتبہ کو گورنر مقرر کیا جس کو قرآن میں فاسق کہا گیا تھا اور جسے مسلمان سخت ناپسند کرتے تھے۔ ولید کی شکایت عبداللٰہ بن مسعود تک پہنچی کہ گھر میں شراب پیتا ہے۔ عبداللٰہ رض نے کہا کہ گھر کی پرائیوسی میں وہ جو بھی کرتا ہے اس کا میں کچھ نہیں کرسکتا، اگر کھلے عام شراب پئے گا تو ہی اس پر حد جاری کرسکوں گا۔ ولید یہ سمجھا کہ اس بیان میں یہ بات پنہاں ہے کہ میں واقعی شراب پیتا ہوں (جو کہ وہ پیتا بھی تھا جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا)۔ لہذا وہ عبداللٰہ رض سے الجھ پڑا کہ آپ نے میری ساکھ بحال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دراصل مسئلہ یہ تھا کہ ولید کو عیاشی کے لیے عبداللٰہ رض بیت المال سے پیسے نہیں لینے دیتے تھے۔ یہ تلخی اتنی بڑھی کہ عثمان رض نے عبداللہٰ رض کو حکم دیا کہ ولید کی اطاعت کریں۔ اس پر عبداللٰہ رض اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ استعفیٰ دے کر اپوزیشن میں شامل ہوگئے اور سیدنا عثمان کی پالیسیوں اور تقریریوں پر شدید تنقید کی۔ یہ تنقید عثمان رض کی حکومت اور پالیسیوں پر تھی، آپ رض کی ذات اور شخصیت پر ہرگز نہیں۔
عثمان رض نے عبداللٰہ رض کو مدینہ طلب کیا۔ جب آپ مدینہ جارہے تھے تو صحرا میں ایک جنازہ آپ کو نظر آیا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہو کہ یہ سیدّنا ابوذرغفاری رض کا جنازہ ہے۔ ابوذر پہلے ہی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی پاداش میں صحرا میں جلاوطن ہوچکے تھے۔ عبداللٰہ رض پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے اور فرمایا کہ اے میرے بھائی ابوذر ۔۔۔ رسول خدا ص نے سچ فرمایا تھا ۔۔۔ تم نے اکیلے سفر کیا، اکیلے وفات پائی اور اکیلے اٹھانے جاؤ گے۔
روایات کے مطابق عبداللٰہ رض مدینہ پہنچے تو سیدّنا عثمان رض نے جمعے کے خطبے میں ان پر شدید تنقید کی۔ سیدّہ عائشہ رض نے موقع پر عبداللٰہ رض کی وکالت کی۔ عبداللٰہ بن مسعود رض کو مسجد سے زبردستی نکال دیا گیا۔ کچھ تلخ تفصیلات یہاں مصلحتاً حذف کی جارہی ہیں۔ اس سارے معاملے سے صحابہ شدید دل برداشتہ ہوکر سیدّنا عثمان کے خلاف ہوگئے۔ سیدّہ عائشہ رض نے تو بالخصوص حکومت کے خلاف شدید تنقید شروع کردی۔ یہی وجہ ہے کہ باغی مدینہ آئے تو سیدّنا علی رض کے سوا کوئی سیدّنا عثمان رض کے دفاع اور حمایت کے لیے نہیں نکلا۔
اس واقعے کے کچھ دنوں بعد آپ رض انتقال فرما گئے۔ عمار بن یاسر رضی اللٰہ عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا کیونکہ عبداللہ بن مسعود وصیت کرکے گئے تھے کہ عثمان بن عفان رض کو میرے جنازے میں شریک نا ہونے دیا جائے۔ آپ ہی کی وصیت کے مطابق آپ کو سیدّنا عثمان بن مظعون رض کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ عثمان بن مظعون دو ہجری میں ہی انتقال کرگئے تھے لہذا عوام میں زیادہ معروف نہیں ہیں لیکن بہت بڑے صحابی ہیں۔ رسول کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے اور رشتے کے خالو بھی (خولہ بنت حکیم رض کے شوہر تھے جو خود رسول خدا ص کی بہت قریبی صحابیہ اور مشیر تھیں جن کے مشورے سے سیدّہ سودہ رض اور سیدّہ عائشہ رض آپ ص کے نکاح میں آئیں)۔ عثمان بن مظعون رض کے انتقال پر آقا کریم ص نے ان کے گالوں پر بوسہ دیا اور بہت گریہ کیا تھا۔ روایات کے مطابق ابن مظعون بقیع میں دفن ہونے والے پہلے صحابی تھے۔ سیدّنا عبداللٰہ بن مسعود جنت بقیع میں اس ہی جلیل القدر صحابی کے پہلو میں آرام فرما رہے ہیں۔
(اس میں سے زیادہ تر معلوم ابن اسحاق کی سیرت الرسول اور ابن سعد کی طبقات الکبیر سے اخذ کی گئی ہے)۔
– احمد الیاس