عبد اللہ بن عمرو کا صفین میں حاضری سے متعلق سیدنا حسین سے اظہار معذرت

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا صفین میں حاضری سے متعلق سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے اظہار معذرت اور اپنی سائغ توجیہ کے اجتہاد کی وضاحت کرتے ہوئے خلیفة المسلمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت میں شامل گروہ کی کثرت کو بڑھانے اور اس باغی گروہ کی جانب سے نہ ہی اسلحہ اٹھایا ہی تلوار نکالی نہ نیزہ چلایا اور نہ ہی تیر چلایا کی وضاحت کرکے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی معذرت پیش کرکے ان کو مطمئن کیا

==========================

طبرانی نے اس حدیث کو نکالا ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سے بیان کیا علی بن سعید الرازی نے کہتے ہیں ہمیں خبردی عباد بن یعقوب اسدی نے کہتے ہیں: ہمیں خبر دی علی بن ہاشم بن برید نے کہتے ہیں مجھ سے حدیث بیان کی میرے والد نے کہتے ہیں ہمیں خبر دی اسماعیل بن رجاء نے بواسطہ اپنے والد رجاء بن ربیعہ سے وہ کہتے ہیں:

《 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اس مجلس میں موجود تھا جس میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بھی تھے، جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، تو مجلس میں موجود افراد نے بھی سلام کا جواب دیا، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما خاموش رہے جب لوگ سلام کا جواب دینے سے فارغ ہو گئے تو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بلند آواز سے سلام کا جواب دیا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، پھر وہ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور کہا: کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں زمین والوں میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کی؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو ابھی یہاں سے گیا ہے، میں نے صفین کی رات سے لے کر اب تک اس شخص سے کلام نہیں کیا ہے، اور اس شخص کا مجھ سے راضی ہونا میرے لئے سرخ نعمتوں سے بڑھ کر محبوب ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے معذرت کیوں نہیں کرلیتے، پس ان دونوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کا وعدہ کر لیا، تو میں بھی ان دونوں کے ساتھ جانے کے لئے ان کے ہمراہ ہو لیا، ابو سعید خدری نے اندر داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کی تو انہیں اجازت مل گئی تو وہ داخل ہوگئے، داخل ہونے کے بعد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے لئے داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو بھی داخل ہونے کی اجازت مل گئی، پس جب عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے، کل شام جب آپ گزرے تھے اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے اس قول کی خبر دی جو انہوں نے کل فرمایا تھا، حسین رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا: اے عبد اللہ کیا آپ کو اس بات کا علم تھا ، کہ میں اہل زمین میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں؟ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا رب کعبہ کی قسم ہاں، حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر کیوں تم نے صفین میں مجھ سے اور میرے والد سے قتال کیا؟ اللہ کی قسم میرے والد مجھ بہتر تھے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن (میرے والد) عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ عبد اللہ رات بھر نماز میں کھڑا رہتا ہے، اور دن میں روزہ رکھتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عبد اللہ بن عمرو، نماز بھی پڑھ اور سو بھی، اور افطار بھی کر (یعنی: روزہ رکھو بھی اور چھوڑو بھی) اور عمرو کی فرمانبرداری کر، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اور جو صفین والے دن کا معاملہ ہے مجھے قسم ہے، میں جو صفین کے لئے نکلا تو میں نے نہ تو اس گروہ کی کثرت میں اضافہ کیا اور نہ ہی میں نے ان کے لئے تلوار کو سونتا، اور نہ ہی میں نے نیزہ چلایا، اور نہ ہی میں نے تیر چلایا، راوی کہتے ہیں: انہوں نے اس معذرت کو قبول کر لیا.

أخرج الطبراني: حدثنا علي بن سعید الرازي قال: نا عباد بن یعقوب الأسدي قال: نا علي بن ھاشم بن البرید قال: حدثني أبي قال: نا إسماعیل بن رجاء عن أبیه قال: کنت في مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم في حلقة فیھا أبو سعید الخدري، و عبد اللہ بن عمرو إذ مر الحسین بن علي فسلّم ، فردّ عليه القوم ، فسكت عبد الله بن عمرو حتى إذا فرغوا القوم (3) رفع عبد الله بن عمرو صوته فقال : وعليك ورحمة الله وبركاته ، ثم أقبل على القوم ، فقال : ألا أخبركم بأحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ قالوا : بلى ، قال : هذا هو الماشي ، ما كلّمني كلمة منذ ليالي صفّين ، ولأن يرضى عني أحبّ إليّ من أن تكون لي حمر النعم ، فقال أبو سعيد : ألا تعتذر إليه؟ قال : بلى ، فتواعدا أن يغدوا إليه ، فغدوت معهما ، فاستأذن أبو سعيد ، فأذن له ، فدخل ثم استأذن لعبد الله بن عمرو ، فلم يزل به حتى أذن له ، فلما دخل قال أبو سعيد : يا ابن رسول الله صلى ‌الله ‌عليه‌ وسلم ، إنّك لما مررت أمس ـ فأخبره بالذي كان من قول عبد الله بن عمرو ـ فقال له حسين : أعلمت يا عبد الله ، أني أحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ أي وربّ الكعبة ، قال : فما حملك على أن قاتلتني وأبي يوم صفّين؟ فو الله لأبي كان خيرا مني ، قال : أجل ، ولكن عمرو شكاني إلى رسول الله صلى‌ الله‌ عليه‌ وسلم فقال : يا رسول الله إن عبد الله يقوم الليل ، ويصوم النهار ، فقال لي رسول الله صلى ‌الله ‌عليه‌ وسلم : « يا عبد الله بن عمرو ، صلّ ونم ، وأفطر وأطع عمرا » ، قال : فلما كان يوم صفّين أقسم علي ، فخرجت أما والله ، ما كثرت لهم سوادا ولا اخترطت لهم سيفا ، ولا طعنت برمح ، ولا رميت بسهم ، قال : فكأنه.

المعجم الأوسط للطبراني (3917) إسنادہ حسن.

« تحقیق وتشریح »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ فواز بن فرحان بن راضی شمری کہتے ہیں:

ابو الحسن علی بن سعید بن بشیر بن مھران رازی، ’’ عَلِیَّك ‘‘ سے معروف ہے، امام دارقطنی کہتے ہیں: یہ اپنی احادیث میں کچھ نہیں ہے، ایسی احادیث بیان کرتا ہے جس کی کوئی دوسرا متابعت نہیں کرتا، اور مصر میں ہمارے اصحاب نے اس کے بارے میں کلام کیا ہے، – اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا – اور کہا: وہ ایسا ہے وہ ایسا ہے اور اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا: یہ ثقہ نہیں ہے. ابن یونس کہتے ہیں: احادیث کا فہم رکھتا تھا اور ان کو یاد رکھتا تھا، لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے. خلیلی کہتے ہیں: حافظ ہے متقی ہے، غریب احادیث بیان کرتا ہے. مسلمہ بن قاسم کہتے ہیں: ثقہ ہے حدیث کا جاننے والا عالم ہے. ابن حجر کہتے ہیں: شاید لوگوں نے اس پر اس لئے کلام کیا کہ حکمرانوں کے پاس جاتا تھا. حمزہ بن محمد کنانی نے حکایت بیان کی: عبدان بن احمد جوالیقی اس کی تعظیم کرتے تھے. تاریخ دمشق (510/41) لسان المیزان (5400) الثقات لابن قطلوبغا (210/7) إرشاد القاضي والداني إلی شیوخ الطبراني (279).

معجم الاوسط (3917) اس حدیث کی سند حسن ہے. اس سند کے متعلق ابن حجر کا قول آگے کی خبر میں آئے گا.

طبرانی نے اس خبر کے عقب میں کہا: اس حدیث کو بواسطہ اسماعیل بن رجاء ہاشم البرید کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا، اور اس حدیث کو ہاشم سے اس کے بیٹے علی بن ہاشم کے علاوہ کوئی دوسرا روایت نہیں کرتا، عباد بن یعقوب اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہے. اور اسی طرح کہا، عباد بن یعقوب وہ الرواجنی ہے یہ اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے جیسا کہ تخریج میں آگے آئے گا.

« حدیث کے متن میں اختلاف »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

– اس حدیث کو ابن عمرو الضبی نے روایت کیا اور وہ ثقہ ہے بواسطہ علی بن ہاشم البرید، اسی سند کے ساتھ اور اس میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قصہ روایت کیا. اس روایت کی تخریج آگے آتی ہے.

– اور اس حدیث کو عباد بن یعقوب الرّواجنیّ (صدوق (سچا) رافضی) نے بواسطہ علی بن ہاشم اسی طرح روایت کیا ہے، اور بواسطہ عباد اس میں اختلاف کیا گیا، – پس اس کو علی بن سعید رازی نے عباد سے روایت کرتے ہوئے حسین رضی اللہ عنہ کا نام لیا. (یہ اس باب میں وہ روایت ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے).

– حافظ ابو بکر البزار نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے روایت بواسطہ عباد حسن رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے. اور یہ روایت بھی آگے آتی ہے.

اور صحیح روایت وہی ہے جسے داؤد بن عمرو نے روایت کیا ہے کیونکہ وہ عباد بن یعقوب سے زیادہ ثقہ ہے حدیث بیان کرنے میں، اور شاید عباد بن یعقوب اس حدیث کو اچھی طرح سے ضبط نہ کرسکا ہو چنانچہ اس نے اس حدیث کو دو طریقوں سے روایت کیا. یہاں پر ایک اور دلیل موجود ہے اس قصہ کے بارے میں جو حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے میں ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ ابتدا میں اس صلح کے خلاف تھے بعد میں جب حسن رضی اللہ عنہ ان پر غضبناک ہوئے تو انہوں نے اس صلح کو قبول کیا۔ [دیکھو حدیث :572].

اور حسن رضی اللہ عنہ کا جہاں تک معاملہ ہے وہ تو صلح کی جانب راغب تھے ان سے تو صلح کے معاملہ میں کراہت منقول ہی نہیں ہے، اور حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین یہ بات طے ہوچکی تھی صلح ہونے سے قبل ہی کے جو کچھ بھی واقعات صلح سے قبل پیش آئے ہیں وہ عام معافی کے زمرے میں ہوں گے، تو کیسے ممکن ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ اس صلح کے نتیجے میں معافی کے بعد عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے کس طرح پیٹھ پھیر سکتے ہیں ؟!!

« اس حدیث کی التحریج »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حدیث کو ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (275/31) میں اور ان کے طریق پر ابن اثیر نے أسد الغابة (358/3) میں نکالا ہے :

أخبرنا أبو بكر محمّد بن الحسين ، نا أبو الحسين بن المهتدي. ح وأخبرنا أبو القاسم بن السّمرقندي ، أنا أبو الحسين بن النّقّور ، قالا : أنا أبو القاسم عيسى بن علي ، نا عبد الله بن محمّد البغوي ، نا داود بن رشيد ، نا علي بن هاشم ، عن أبيه عن إسماعيل بن رجاء ، عن أبيه قال :

كنت في مسجد الرسول صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم في حلقة فيها : أبو سعيد الخدري ، وعبد الله بن عمرو ، فمرّ بنا حسين بن علي ، فسلّم ، فردّ عليه القوم ، فسكت عبد الله بن عمرو حتى إذا فرغوا القوم (3) رفع عبد الله بن عمرو صوته فقال : وعليك ورحمة الله وبركاته ، ثم أقبل على القوم ، فقال : ألا أخبركم بأحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ قالوا : بلى ، قال : هذا هو الماشي (4) ، ما كلّمني كلمة منذ ليالي صفّين ، ولأن يرضى عني أحبّ إليّ من أن تكون لي حمر النعم ، فقال أبو سعيد : ألا تعتذر إليه؟ قال : بلى ، فتواعدا أن يغدوا (5) إليه ، فغدوت معهما ، فاستأذن أبو سعيد ، فأذن له ، فدخل ثم استأذن لعبد الله بن عمرو ، فلم يزل به حتى أذن له ، فلما دخل قال أبو سعيد : يا ابن رسول الله صلى ‌الله ‌عليه‌ وسلم ، إنّك لما مررت أمس ـ فأخبره بالذي كان من قول عبد الله بن عمرو ـ فقال له حسين : أعلمت يا عبد الله ، أني أحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ أي وربّ الكعبة ، قال : فما حملك على أن قاتلتني وأبي يوم صفّين؟ فو الله لأبي كان خيرا مني ، قال : أجل ، ولكن عمرو شكاني إلى رسول الله صلى‌ الله‌ عليه‌ وسلم فقال : يا رسول الله إن عبد الله يقوم الليل ، ويصوم النهار ، فقال لي رسول الله صلى ‌الله‌ عليه ‌وسلم : «يا عبد الله بن عمرو ، صلّ ونم ، وأفطر وأطع عمرا» ، قال : فلما كان يوم صفّين أقسم علي ، فخرجت أما والله ، ما كثرت لهم سوادا (6) ولا اخترطت لهم سيفا ، ولا طعنت برمح ، ولا رميت بسهم ، قال : فكأنه. ولیس عندھما لفظ: (لا طاعة لمخلوق في….).

رجاء بن ربیعہ سے وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اس مجلس میں موجود تھا جس میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بھی تھے، جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، تو مجلس میں موجود افراد نے بھی سلام کا جواب دیا، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما خاموش رہے جب لوگ سلام کا جواب دینے سے فارغ ہوگئے تو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بلند آواز سے سلام کا جواب دیا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، پھر وہ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور کہا: کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں زمین والوں میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کی؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو ابھی یہاں سے گیا ہے، میں نے صفین کی رات سے لے کر اب تک اس شخص سے کلام نہیں کیا ہے، اور اس شخص کا مجھ سے راضی ہونا میرے لئے سرخ نعمتوں سے بڑھ کر محبوب ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر معذرت کیوں نہیں کرلیتے، پس ان دونوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کا وعدہ کرلیا، تو میں بھی ان دونوں کے ساتھ جانے کے لئے ان کے ہمراہ ہولیا، ابو سعید خدری نے اندر داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کی تو انہیں اجازت مل گئی تو وہ داخل ہوگئے، داخل ہونے کے بعد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے لئے داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو بھی داخل ہونے کی اجازت مل گئی، پس جب عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے، کل شام جب آپ گزرے تھے اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے اس قول کی خبر دی جو انہوں نے کل فرمایا تھا، حسین رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا: اے عبد اللہ کیا آپ کو اس بات کا علم تھا ، کہ میں اہل زمین میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں؟ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا رب کعبہ کی قسم ہاں، حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر کیوں تم نے صفین میں مجھ سے اور میرے والد سے قتال کیا؟ اللہ کی قسم میرے والد مجھ بہتر تھے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن (میرے والد) عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ عبد اللہ رات بھر نماز میں کھڑا رہتا ہے، اور دن میں روزہ رکھتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عبد اللہ بن عمرو، نماز بھی پڑھ اور سو بھی، اور افطار بھی کر (یعنی: روزہ رکھو بھی اور چھوڑو بھی) اور عمرو کی فرمانبرداری کر، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اور جو صفین والے دن کا معاملہ ہے مجھے قسم ہے، میں جو صفین کے لئے نکلا تو میں نے نہ تو اس گروہ کی کثرت میں اضافہ کیا اور نہ ہی میں نے ان کے لئے تلوار کو سونتا، اور نہ ہی میں نے نیزہ چلایا، اور نہ ہی میں نے تیر چلایا، راوی کہتے ہیں: انہوں نے اس معذرت کو قبول کر لیا. ولیس عندھما لفظ: (لا طاعة لمخلوق في….). اور ابن عساکر اور ابن اثیر کے نزدیک یہ لفظ نہیں ہے : (لا طاعة لمخلوق في….).

میں (شمری) کہتا ہوں: یہ ابن عساکر کا طریق وہ طریق ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے ’’حدیث داؤد بن عمرو الضبي‘‘ جسے ابو القاسم بغوی نے جمع کیا ہے، اس کے لئے موارد ابن عساکر (1616/3) ملاحظہ فرمائیں، شاید داؤد بن عمر تصحیف ہو کر داؤد بن رشید ہوگیا ہے، اور اس بات کی تائید اعرابی کی وہ حدیث کرتی ہے جسے انہوں نے معجم الاعرابی (1028/3، ح2205) میں نکالا ہے : نا علي بن سھل (بن المغیرۃ النسائي البزار)، نا داؤد بن عمرو الضبي، نا علي بن ھاشم البرید، به. اور اس حدیث میں داؤد بن عمرو الضبی نے (لا طاعة لمخلوق في…) والے الفاظؓ نقل نہیں کئے.

اس تائید کے ساتھ ترجیح اس بات کو ہوگی کہ ابن عساکر اور ابن اثیر کے نزدیک جو راوی ہے وہ (داؤد بن عمرو ضبی) ہے اور ابن عساکر نے داؤد بن عمرو ضبی کی حدیث سے اس کو نقل کیا ہے، واللہ اعلم، اس کی تائید میں جو حدیث [153] آ رہی ہے اس کو ملاحظہ فرمائیں.

« اس خبر کے باب میں شواہد »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[152] حدیث اس حدیث کے پہلے جزء کے بارے میں شاہد ہے جو ۱۵۲ رقم کے تحت بیان کی گئی ہے.

حدیث کے آخری حصے میں عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی صفین میں حاضری اور اس میں قتال سے پہلو تہی سے متعلق سبب بیان ہوا ہے جو دو خبریں اس سے قبل بیان کی جا چکی ہیں، اور جو ۳۷۵ رقم کے تحت آرہی ہے.

اس خبر کو بزار نے نکالا ہے : حدثنا عباد بن یعقوب الکوفي، ثنا علي بن ھاشم بن البرید، ثنا أبي عن إسماعیل بن رجاء، عن ابیه قال کنت جالسا بالمدینة في مسجد الرسول صلی اللہ علیه وسلم……..

یہ سند شیعہ روات پر مشتمل ہے – جیسا کہ اس خبر کے بارے میں ابن حجر نے ذکر کیا ہے -، اللہ جزائے خیر سے نوازے اس خبر کے بارے میں انصاف پسندی سے کام لینے پر.

یہ الفاظ طبرانی کی روایت کردہ الفاظ سے زیادہ واضح ہیں، کیونکہ یہ عبارت خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے، طبرانی میں کی روایت کردہ دوسری حدیث میں آئے ہیں.

یہ واقعہ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بہت عرصہ بعد پیش آیا، یا تو یہ واقعہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا یا ان کے بیٹے یزید کی امارت کے دور میں پیش آیا.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا یہ قول (تم ان کے پاس کیوں نہیں جاتے) تاکہ آپ صفین میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی حاضری کے بارے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے معذرت کر لیں، بزار نے جو حدیث روایت کی ہے اس میں اس قسم کے صریح الفاظ وارد ہوئے ہیں: ( کہ آپ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس معذرت کرنے کے لئے کیوں نہیں جاتے؟) اور باقی احادیث کے مصادر میں جو الفاظ تخریج ہوئے ہیں : (ألا تعتذر إلیه؟).

راویت کردہ حدیث کے آخری حصے میں راوی نے کہا: (انہوں نے اس معذرت کو ان سے قبول کرلیا) یعنی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی معذرت کو قبول کرلیا، یعنی حسین رضی اللہ عنہ کا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے معذرت کا سبب سننے کے بعد سکوت کرلینے کا مطلب ہے کہ انہوں نے اس معذرت کو قبول کرلیا جو انہوں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے اپنے اجتہاد سے نص کے فہم میں جو جائز توجیہ (توجیہ سائغ) کی تھی اس معذرت کو سننے سے قبل اس موقف پر شدت اختیار کی ہوئی تھی کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے پس جب عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے والد عمرو رضی اللہ عنہ کی اطاعت کا حکم دیا تھا کہ ’’اپنے باپ کی اطاعت کر جب تک زندہ ہو، اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس بات کی بھی وضاحت کی کہ صفین والے دن انہوں نے اسلحہ نہیں اٹھایا تو اس وضاحت کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ کا نفس اطمینان میں ہوگیا.

اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ : (خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے) اس قول سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مقصد خلیفہ المسلمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنا ہے، اور اہل شام کی یہ بغاوت برمبنیٔ اجتہاد و تاویل تھی.

اور حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جو صلح ہوئی وہ عام معافی کی بنیاد پر ہوئی تمام خون اور اموال سے معافی کی بناء پر جو صلح سے قبل وقوع پذیر ہوئے تھے، اس صلح کے بعد حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد وفد کے ساتھ ان کے پاس گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا اکرام کیا ، واللہ اعلم.

اور یہ جو قول ہے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا کہ حسین رضی اللہ عنہ (زمین والوں میں سب سے زیاد محبوب ہیں آسمان والوں کے نزدیک) : تو یہ قول اس وقت کے ساتھ مخصوص تھا، کیونکہ اس وقت زمین پر ان سے زیادہ افضل شخصیت کوئی موجود نہ تھی اور ایسا امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد (40 ہجری) میں اور ان کے بیٹے امیر المومنین سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد، اور باقی عشرۃ مبشرۃ صحابہ رضی اللہ عنہم کی موت کے بعد مخصوص ہے، ان عشرۃ مبشرۃ بالجنۃ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں جن کی موت 55 ہجری میں ہوئی اور یہ واقعہ حتمی طور پر سعد رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کا ہے.

اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اسی وقت کے ساتھ مختص تھا :

[152] ابن سعد نے اس حدیث کو نکالا ہے: أَخْبَرْنَا قَبِيصَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ کہتے ہیں : کہ عمرو بن عاص کعبہ کے سائے میں تھے کہ انہوں نے سیدنا حسین بن علی کو تشریف لاتے دیکھا تو فرمایا: « یہ شخص زمین والوں میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے ».

یہ ایک طویل خبر ہے جسے طبرانی اور بزار نے نکالا ہے – اور یہ حدیث دوسری طریق سے بہت مختصرا بیان کی گئی ہے……

الطبقات الکبری [الطبعة الخامسة (395/1) – ت : السلمي] میں یہ خبر روایت کی گئی ہے یہ حدیث صحت کے اعتبار سے حسن کے درجے میں ہے اور اس میں یہ قول نہیں ہے (کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے) صحیح بات یہ ہے کہ وہ مدینہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے جیسا کہ سابقہ دو خبروں میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے. اور اس سند کے رجال ثقہ ہیں، لیکن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے عیزار کے سماع کی وضاحت مجھ پر نہیں ہوسکی ہے، اور ان کا یہ قول ارسال کی جانب ہونے پر راحج ہے. اس خبر کی تخریج کے آخر میں ایک زائد خبر کا ذکر کیا گیا ہے.

« الشواھد »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ شاہد گذشتہ دونوں خبروں کے لئے بطور شاہد ہے.

اس خبر کی تخریج ابن عساکر (179/14) نے کی اور اس کو ابن کثیر نے البدایة والنھایة (226/8) میں ابن سعد کے طریقے پر اسی طرح پیش کیا، اور یہ خبر سیر أعلام النبلاء (285/3) والإصابة (78/2) وتھذیب التھذیب (346/2) میں بواسطہ یونس بن اسحاق اسی طرح موجود ہے. اور ابن سعد اور ابن عساکر اور ذہبی کے نزدیک اس کے آخر میں یہ زائد ہے : ابو اسحاق نے کہا: مجھے یہ بات پہنچنی ہے کہ ایک شخص عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہا: مجھ پر اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک گردن کو چھڑانا واجب ہے. تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں اولاد اسماعیل میں سے سوائے حسن اور حسین کے کسی اور کو نہیں جانتا.

امام ذہبی اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : میں اس بات کو نہیں سمجھ سکا.

شیخ شمری کہتے ہیں : سیر اعلام النبلاء کے محقق نے کہا: شاید عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا اس قول سے مقصد یہ ہے کہ بنی اسماعیل کی اولاد میں سے کسی کی گردن کو آزاد کرانا اب ممکن نہیں کیونکہ بنی اسماعیل کی جانب تو حسن و حسین منسوب ہیں اور وہ تو آزاد ہیں غلام نہیں ہیں اس لئے عمرو رضی اللہ عنہ اس کی نذر کے پورا ہونے سے مایوس ہوگئے. انتھی.

وحكم الدارقطني في (العلل)(2826) بوقفه على ابن عمرو، وأخرج ابن عساكر في (تاريخه)(14/179): (قال أبو إسحاق: بلغني أن رجلاً جاء إلى عمرو بن العاص وهو جالس في ظل الكعبة، فقال: عليّ رقبة من ولد إسماعيل، فقال: ما أعلمها إلا الحسن والحسين).

اور امام دارقطنی نے علل (2826) میں اس حدیث پر عبد اللہ بن عمرو پر موقوف ہونے کا حکم لگایا ہے، جسے ابن عساکر نے تاریخ دمشق (14/179) میں نکالا ہے.

فالظاهر من هذه الأخبار حصر ولد إسماعيل في “الحسن والحسين” فهل يُقال أن باقي القبائل مثل: (أسد، تميم، هذيل…إلخ) ليست من ولد إسماعيل؟!

‏وهذا لازم من أخذ بظاهر حديث عائشة -رضي الله عنها- أن يأخذ بظاهر هذه الآثار في حصر ولد إسماعيل -عليه السلام- في الحسن والحسين -رضي الله عنهما- (!) وهذا لا يستقيم أبداً ولا هكذا يُفسر،

‏وإنما هو من باب الأقرب ثم الأقرب، أي: من كان أقرب نسباً للحسن والحسين -رضي الله عنهما- فهو أحق بالعتق لعظم الأجر،

‏ولصراحة الحسن والحسين -رضي الله عنهما- في نسبهم إلى إسماعيل -عليه السلام- كما قال النبي -صلى الله عليه وسلم- يخاطبهم: (كان أبوكم إبراهيم يعوذ بهما إسماعيل وإسحاق) في حديث: (أعيذكما بكلمات الله التامة…).

اور بظاہر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے لئے یہ حدیث حسن و حسین رضی اللہ عنہما پر حصار کرتی ہے کیا باقی قبائل مثلا (أسد، تميم، هذيل…إلخ) وغیرہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے نہیں ہیں؟!

اور اس بات کو لازمی طور پر لینا پڑے گا جو سیدۃ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، ان آثار کو لینے سے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما ہی کی خصوصیت ثابت ہو رہی ہے.

اور اس باب میں حسن و حسین رضی اللہ عنھما ہی بہت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے نسب میں بہت زیادہ قریبی ہیں۔ اور وہ دونوں ہی اس اجرعظیم کیلئے آزادی کے زیادہ حق دار ہیں.

اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کے لئے جو صراحت کے ساتھ نسبت کی گئی ہے اس کی دلیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ان کلمات کے ساتھ اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو اللہ کی پناہ میں دیتے تھے جیسا کہ حدیث میں یہ کلام موجود ہے : اعیذکما بکلمات اللہ التامة…..

=========================

قال الشیخ فواز بن فرحان بن راضي الشمري:

أبو الحسن علي بن سعید بن بشیر بن مھران الرازي، المعروف ’’ عَلِیَّك ‘‘ ، قال الدارقطني: لم یکن بذاك في حدیثه، حدث بأحادیث لم یتابع علیھا، وتکلم فيه أصحابنا بمصر، – وأشار بیدہ – وقال: ھو کذا و کذا، ونفض یدہ یقول: لیس بثقة. وقال ابن یونس: کان یفھم ویحفظ، تکلموا فیه. وقال الخلیلي: حافظ متقن، صاحب غرائب. وقال مسلمة بن قاسم: کان ثقة عالما بالحدیث. وقال ابن حجر: لعل کلامھم فیه من جھة دخوله في أعمال السلطان. وحکی حمزۃ بن محمد الکناني: أن عبدان بن أحمد الجوالیقي کان یعظمه. تاریخ دمشق (510/41) لسان المیزان (5400) الثقات لابن قطلوبغا (210/7) إرشاد القاضي والداني إلی شیوخ الطبراني (279).

المعجم الأوسط (3917) إسنادہ حسن. وسیأتي قول ابن حجر عن ھذا الإسناد فی الخبر التالي.

قال الطبراني عقب الخبر: ’’ لم یرو ھذا الحدیث عن إسماعیل بن رجاء إلا ھاشم البرید، ولا رواہ عن ھاشم إلا ابنه علي بن ھاشم، تفرد به : عباد بن یعقوب ‘‘. کذا قال، غیر أنّ عباد بن یعقوب – وھو الرّواجنيّ – لم یتفرد به کما سیأتي فی التخریج.

« الاختلاف في المتن »

– ھذا الخبر رواہ بن عمرو الضبي (ثقة)، عن علي بن ھاشم بن البرید، بھذا الإسناد، فجعل القصة مع الحسین رضي اللہ عنه. (وستاتي روایة في التخریج).

– ورواہ عباد بن یعقوب الرّواجنیّ (صدوق رافضي)، عن علي بن ھاشم، به ، واختلف فیه عن عباد ، – فرواہ علي بن سعید الرازي، عن عباد، فقال ’’الحسین‘‘. (وھو خبر الباب الذي رواہ الطبراني).

– خالفه الحافظ أبو بکر البزار فرواہ عن عباد، وقال : ’’الحسن‘‘. (وستأتي) روایته في الخبر التالي).

والصواب: روایة داؤد بن عمرو، فھو أوثق من عباد بن یعقوب، ولعل عبادا لم یضبطه فرواہ علی الوجھین. وھناك دلیل آخر علی أن القصة وقعت مع الحسین رضی اللہ عنه کان کارھا للصلح في أول الأمر، ثم قبله بعد أن غضب منه الحسن رضی اللہ عنه. أنظر [572].

أما الحسن رضی اللہ عنه : فإنه کان راغبا فی الصلح لا کارھا له، وقد أصدر عفوا عاماً ھو ومعاویة رضي اللہ عنهما عن کل ما جری في الفتنة قبل وقوع الصلح، فیکف یظل الحسن رضی اللہ عنه مدبرا عن عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنھما بعد ھذا العفو؟!!

« التحریج »

أخرجه ابن عساکر في تاریخ دمشق (275/31) ومن طریقه ابن الأثیر في أسد الغابة (358/3) أخبرنا أبو بكر محمّد بن الحسين ، نا أبو الحسين بن المهتدي.

ح وأخبرنا أبو القاسم بن السّمرقندي ، أنا أبو الحسين بن النّقّور ، قالا : أنا أبو القاسم عيسى بن علي ، نا عبد الله بن محمّد البغوي ، نا داود بن رشيد ، نا علي بن هاشم ، عن أبيه عن إسماعيل بن رجاء ، عن أبيه قال :

كنت في مسجد الرسول صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم في حلقة فيها : أبو سعيد الخدري ، وعبد الله بن عمرو ، فمرّ بنا حسين بن علي ، فسلّم ، فردّ عليه القوم ، فسكت عبد الله بن عمرو حتى إذا فرغوا القوم (3) رفع عبد الله بن عمرو صوته فقال : وعليك ورحمة الله وبركاته ، ثم أقبل على القوم ، فقال : ألا أخبركم بأحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ قالوا : بلى ، قال : هذا هو الماشي (4) ، ما كلّمني كلمة منذ ليالي صفّين ، ولأن يرضى عني أحبّ إليّ من أن تكون لي حمر النعم ، فقال أبو سعيد : ألا تعتذر إليه؟ قال : بلى ، فتواعدا أن يغدوا (5) إليه ، فغدوت معهما ، فاستأذن أبو سعيد ، فأذن له ، فدخل ثم استأذن لعبد الله بن عمرو ، فلم يزل به حتى أذن له ، فلما دخل قال أبو سعيد : يا ابن رسول الله صلى ‌الله ‌عليه‌ وسلم ، إنّك لما مررت أمس ـ فأخبره بالذي كان من قول عبد الله بن عمرو ـ فقال له حسين : أعلمت يا عبد الله ، أني أحبّ أهل الأرض إلى أهل السماء؟ أي وربّ الكعبة ، قال : فما حملك على أن قاتلتني وأبي يوم صفّين؟ فو الله لأبي كان خيرا مني ، قال : أجل ، ولكن عمرو شكاني إلى رسول الله صلى‌ الله‌ عليه‌ وسلم فقال : يا رسول الله إن عبد الله يقوم الليل ، ويصوم النهار ، فقال لي رسول الله صلى‌ الله ‌عليه ‌وسلم : «يا عبد الله بن عمرو ، صلّ ونم ، وأفطر وأطع عمرا» ، قال : فلما كان يوم صفّين أقسم علي ، فخرجت أما والله ، ما كثرت لهم سوادا (6) ولا اخترطت لهم سيفا ، ولا طعنت برمح ، ولا رميت بسهم ، قال : فكأنه. ولیس عندھما لفظ: (لا طاعة لمخلوق في….).

أقول: ھذا الطریق ھو طریق ابن عساکر إلی جزء حدیثي یدعي: ’’حدیث داؤد بن عمرو الضبي‘‘ جمع أبي القاسم البغوي، انظر: موارد ابن عساکر (1616/3)، ولعل (داود بن عمرو) تصحف إلی (داود بن رشید)، ویؤید ھذا: أن الأعرابي أخرجه في معجمه (1028/3، ح2205) نا علي بن سھل (بن المغیرۃ النسائي البزار)، نا داؤد بن عمرو الضبي، نا علي بن ھاشم البرید، به. ولیس فیه : (لا طاعة لمخلوق في…).

وبھذا یترجح أن الراوي عند ابن عساکر وابن الأثیر: ھو (داؤد بن عمرو الضبي)، وأن ابن عساکر اقتبسه من حدیث ’’داود بن عمرو‘‘ ، واللہ اعلم. وانظر الأخبار التالیة إلی [153].

« شواھد خبر الباب »

یشھد للجزء الأول: الخبر الذي سیأتي برقم [152].

ویشھد للجزء الأخیر (المتعلق عن سبب شھودہ عبد اللہ رضی اللہ عنه صفین وعدم قتاله فیھا) : الخبران السابقان، وما سیأتي [375].

أخرج البزار: حدثنا عباد بن یعقوب الکوفي، ثنا علي بن ھاشم بن البرید، ثنا أبي عن إسماعیل بن رجاء، عن ابیه قال کنت جالسا بالمدینة في مسجد الرسول صلی اللہ علیه وسلم……..

ھذا الإسناد شیعي – فیما ذکر ابن حجر – ، جزی اللہ رواته خیرا علی إنصافھم في روایتھم لھذا الخبر.

وھذا اللفظ أوضح من لفظ الطبراني، فإن عبارۃ: (لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق)، جاءت عند الطبراني في آخر الحدیث.

ھذہ الحادثة کانت بعد استشھاد أمیر المؤمنین علي رضی اللہ عنه بزمن، أي أنھا في خلافة أمیر المؤمنین معاویة بن ابي سفیان رضي اللہ عنھما، أو في خلافة ابنه یزید.

قول أبي سعید الخدري رضی اللہ عنه (ألا تغدوا إلیه): لتعتذر الیه من شھودك صفین مع معاویة رضی اللہ عنه، وقد جاءت صریحة في لفظ البزار: (ألا تنطلق الیه فتعتذر الیه؟)۔ وفي بقیة مصادر التخریج: (ألا تعتذر إلیه؟).

قال الراوي في آخر الحدیث : (فکأنه قبل منه)، یعني کأن الحسین رضی اللہ عنہ قبل من عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما اعتذارہ؛ وھذا یعني أن الحسین رضی اللہ عنه لان سکنت نفسه بعد ما سمع السبب (العذر) الذي ذکرہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کان باجتھاد في فھم النص، وبتوجیھه توجیھا سائغا، وقد کان الحسین رضي اللہ عنه – قبل سماعه لعبد اللہ رضي اللہ عنه – ذا موقف شدید؛ لأنه لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق، فبیّن عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنھما أن النبي صلي اللہ علیه وسلم أمرہ بطاعة أبیه، ’’أطع أباک ما دام حیا، ولا تعصه وبیّن أنه لم یرفع علیھم السلاح یوم صفین، فسکنت نفس الحسین رضي اللہ عنه.

قول الحسین رضي اللہ عنه (لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق) : یقصد به البغي علی الخلیفة، وقد وقع البغي عن تأویل واجتھاد من أھل الشام.

ھذا وإنّ الحسن رضي اللہ عنه صالح معاویة وأصدر معاً ’’عفوا عاماً‘‘ عن کل الدماء والأموال التي کانت قبل الصلح (*)، ثم وفد الحسن رضي اللہ إلی معاویة بعد البیعة، فأکرمه معاویة رضي اللہ عنه (*) ، واللہ اعلم.

وأما قول عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنھما : أنّ الحسین رضي اللہ عنه (أحبّ أھل الأرض إلی أھل السّماء) : فھذا مختص بوقته، أي أنه أفضل من بقي علی وجه الأرض حینھا، وذلك بعد موت أمیر المؤمنین علي رضي اللہ عنه (40ھـ) وابنه أمیر المؤمنین الحسن رضي اللہ عنه (49 ھـ)، وبعد موت بقیة العشرۃ المبشرین بالجنة رضي اللہ عنھم، وکان آخر العشرۃ موتاً : سعد أبي وقاص رضي اللہ عنه (55 ھـ)، فھذہ الحادثة کانت بعد وفاۃ سعد رضي اللہ عنه حتمًا.

ویدل علی أنھا کانت مختصة بحینھا ما :

[152] أخرج ابن سعد : أَخْبَرْنَا قَبِيصَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ قَالَ: بَيْنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ إِذْ رَأَى الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ مُقْبِلًا فَقَالَ: « هَذَا أَحَبُّ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ ».

وھذا الخبر الطویل – الذي أخرجه الطبراني والبزار – ورد مختصرا جدا من وجه آخر ….

الطبقات الکبری [الطبعة الخامسة (395/1) – ت : السلمي] حسن بشواھدہ عد قوله (جالس في ظل الکعبة) فالصواب أنه في مسجد النبي صلي اللہ علیه وسلم بالمدینة کما في الخبرین السابقین. وھذا إسناد رجاله ثقات، ولکن لم یتبین لي سماع العیزار من عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنھما ، وقوله یرجح إرساله. وفي آخر الخبر زیادۃ ذکرتھا في آخر التخریج.

« الشواھد »

یشھد له الخبران السابقان.

« التخریج »

أخرجه ابن عساکر (179/14) وأردہ ابن کثیر فی البدایة والنھایة (226/8) من طریق ابن سعد، به. ھو في سیر أعلام النبلاء (285/3) والإصابة (78/2) وتھذیب التھذیب (346/2) عن یونس بن إسحاق، به. وورد في آخرہ زیادۃ عند ابن سعد وابن عساکر والذھبي : (فقال أبو اسحاق : بلغني أن رجلا جاء إلی عمرو بن العاص وھو جالس في ظل الکعبة فقال : عليّ رقبة من ولد إسماعیل. فقال : ما اعلمھا إلا الحسن والحسین).

قال الذھبي : ما فھمته.

قال محقق السیر : لعل عمرا أراد أن عتق رقبة من بني إسماعیل متعذر، فإنه أحاله علی الحسن والحسین، وھما – وإن کانا ینتسبان إلی إسماعیل – حران لا یملکان، فکأنه أیأسه من الوفاء بنذرہ. انتھی.

( صحيح أخبار صفين والنهروان وعام الجماعة: 1/ 238-243 ).

احمد الیاس