علامہ ابن تیمیہ

عام طور پر ابوسفیان، ہند، یزید بن ابوسفیان اور دیگر طلقاء سے زیادہ اہمیت اور فضیلت امیر معاویہ کی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

“1. علی رضی اللہ عنہ، اللہ تعالی اور اس کے رسول (ص) اور تمام مومنین کے نزدیک معاویہ سے، ان کے والد ابوسفیان سے اور ان کے بھائی یزید بن ابوسفیان سے بھی افضل ہیں جبکہ یہ دونوں حضرات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خود افضل تھے،

2. اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، اور وہ سابق اور اول صحابہ کرام جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان تمام صحابہ سے افضل ہیں جو فتح مکہ پر اسلام لائے، اور ان فتح مکہ والوں میں سے بھی زیادہ تر صحابہ کرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں۔”

(منھاج السنۃ 4/396)

گویا ابن تیمیہ کے نزدیک امیر معاویہ سے ان کے والد ابوسفیان سمیت اکثر و بیشتر طلقاء بھی بہتر تھے۔ اس رائے سے اتفاق کے سوا کوئی چارا نہیں کیونکہ اسلام لانے کے بعر ابوسفیان نے عملاً کوئی فتنہ کھڑا نہیں کیا، کسی اولوالامر (خلیفہ راشد) سے بغاوت نہیں کی اور خود میدان جنگ میں جہاد کیا اور زخم بھی کھائے حتیٰ کہ ہند بھی جنگ یرموک میں جہادی جوش و جذبے سے شریک ہوئیں تاکہ بدر و احد میں اپنے کردار کا عملی ازالہ کرسکیں، جبکہ جنرل یزید بن ابوسفیان کی تو اسلام کے لیے بڑی فوجی خدمات ہیں۔ اس کے برعکس امیر معاویہ کا خود میدانِ جنگ میں جا کر لڑنا یا زخمی ہونا بھی ثابت نہیں ہے (روایات کے مطابق آپ بہت موٹے تھے لڑنے کی صلاحیت نا رکھتے تھے، حتٰی کہ آپ کو خطبہ جمعہ و عید بھی بیٹھ کر دینا پڑتا تھا کیونکہ آپ زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے تھے) اور آپ خلافتِ راشدہ سے باغی اور موجبِ فتنہ بھی ہوئے۔ اسی طرح دیگر نمایاں طلقاء مثلاً عکرمہ بن ابوجہل یا ابوسفیان بن حارث کی خدمات اور ان کے اسلام کی حالت بھی قبولِ اسلام کے بعد بہتر رہی اور وہ بھی امیرِ شام سے بالتحقیق افضل ہیں۔

احمد الیاس