علامہ ضمیر اختر نقوی مرحوم نے اپنے آبائی شہر لکھنو سے جڑی یہ یاداشتیں گزشتہ سال بائیس جنوری کو فیس بک پر لکھی تھیں۔ میں نے اس تحریر کو تھوڑی بہت ایڈٹنگ اور فارمیٹنگ کرکے شئیر کیا تھا۔ جن کے آباو اجداد کا تعلق یو پی سے ہے، وہ بالخصوص اس تحریر کو ضرور پڑھیں اور تحریر کے ساتھ ساتھ انداز بیاں کا بھی لطف لیں۔
۔
ہم لکھنو میں محلّہ وزیر گنج میں رہتے تھے اس کو آغا میر کی ڈیوڑھی بھی کہتے تھے۔ گھر سے دس قدم کےفاصلے پر ایک طرف سٹی اسٹیشن اور حامد پارک تھا۔ گھر کے سامنے راجہ محمود آباد کا محل اقبال منزل تھا۔ گھر کے پیچھے والی کھڑکی بلند باغ میں کھلتی تھی، جب تک نئی کالونی ہندووں کی نہیں بنی تھی۔ پچھلی کھڑکی سے رفاہِ عام کلب نظر آتا تھا یہ زمین بھی چھوٹی رانی محمود آباد کی تھی رفاہ عام بھی ان کی ہی زمین پر بنا تھا۔ رفاہ عام کلب کے سامنے چوراھے پر میر تقی میر کی قبر تھی۔ وہ روڈ بعد میں ان کے نام کر دی گئی تھی۔ وزیر گنج کے ھمارے گھر میں صدر دروا زہ لبِ راہ کھلتا تھا دو منزلہ مکان تھا قدیم کسی ہندو کا تعمیر شدہ وہ مکان نواب حامد علی خان بہادر کی بیگم رانی نانپارہ سلطنت بیگم نے خرید کر کرایہ پر اٹھا دیا۔ 1940 میں والد سید ظہیر حسن نقوی مرحوم نے ایک روپے آٹھ آنے پر کرایہ پر لیا۔ پھر چند برسوں کے بعد تین روپیہ کرایہ ھوا آخری کرایہ ھمارے زمانے میں سات روپیہ ھو گیا تھا۔ یہ گویا مہنگائی کا زمانہ آگیا تھا جنگِ عظیم کے بعد۔
مکان کا نمبر 47 لچھمن پرشاد روڈ تھا۔ دروازے پر لیٹر باکس لگا تھا اس میں پوسٹ کارڈ اور لفافے والے خطوط آتے تھے۔ دروازے کے ساتھ ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جو کبھی بند کر دی گئ تھی۔ اس مکان کے دروازے کے بعد دہلیز تھی۔ پھر ایک اور دروازہ جو دالان میں کھلتا تھا۔ چھوٹا سا صحن اور دوسری طرف بھی بڑا سا دالان تھا۔ گھر کے نیچے دو دوکانیں تھیں۔ ایک میں پہلے حامد قلعی گر تھا جو تانبے کے برتنوں پر رانگے کی قلعی کرتا تھا۔ بعد میں ایک کباب والا آگیا اور کیا چٹ پٹے کباب بناتا بالکل ٹنڈے کباب والے کے چتخارے والے کباب خوشبو نہایت نفیس۔
دوسری بڑی دوکان ایک باغ مکہ والے درزی جنّن کے پاس تھی ہر طرح کے سردی گرمی کے کپڑے خواتین اور مرد حضرات کے سیتا تھا اور ماہر درزی تھا۔ بڑے بڑے جج، ڈاکٹر، راجے، مہاراجے، نوابین، حکومتی آفیسران کے کپڑے سیتا تھا۔ شیروانی تو ایسی بناتا کہ دوسرے شہروں کے لوگ اس کے پاس آتے تھے ک۔ اب جنّن درزی شاید ہی زندہ ہو۔ بعد میں 1976 میں جب میں پاکستان سے لکھنو گیا تو یہ درزی سلطنت منزل کی دوکان میں چلا گیا تھا، حامد کنواں جہاں ھے حامد پارک کے پاس۔
ھمارے گھر کے سامنے آٹا پیسنے کی مشین لگی تھی جسے چکی بولتے تھے۔ سردیوں میں روئی کی مشین بھی چلتی تھی۔ گھر کے سامنے لکڑی کی ٹال بھی تھی۔ چولھے میں جلانے کی لکڑی جس سے کھانا پکتا تھا، بعد میں برادے کی انگیٹھی کا زمانہ آیا اور پھر چائے بنانے کا اسٹوپ جو مٹی کے تیل سے چلتا تھا اور پٹرول سے چلتا تھا ،ھوا بھری جاتی تھی۔ روشنی کے لئے لالٹین کا استعمال ھوتا تھا جو مٹی کے تیل سے جلتی تھی۔ محرّم میں گیس یعنی پیٹرو میکس جلتی تھی اس کی روشنی بہت اعلیٰ تھی۔ جگمگ جگمگ ماحول ھو جاتا تھا۔
اچھا ھمارے وزیر گنج والے اس مکان کی دوسری منزل میں دو کمرے تھے۔ ایک چھوٹا کمرہ اور دوسرا بڑا کمرہ۔ محّرم کی مجالس بڑے کمرے میں ھوتی تھیں۔ اسی میں امام باڑہ سجتا تھا اور راجہ کے بازار سے تعزیہ ہدیہ ھوکر آتا، زیادہ تر سبز رنگ کا تعزیہ آتا تھا۔ یہ باتیں دوسرے مضمون میں لکھیں گے۔ دوسری منزل پر دو طرف صحن تھے جو گرمیوں میں کام آتے۔ سائڈ میں وضو کرنے کا چبوترا ایک طرف کیاریاں جس میں گلاب ۔۔۔موتیا ۔۔۔جوہی ۔۔۔چمیلی ۔۔۔۔کے پھول لگے تھے ۔۔۔سردیوں میں گیندے کے پھول آتے اور گلِ مہندی ۔. سورج مکھی کے پھول آتے تھے۔ بارش کے زمانے میں سبز پتے بہت اچھے لگتے ل۔ چھوئی موئی کا ایک پودا تھا اور دو پودے ڈیزی گلابی اور زعفرانی تھے ۔۔۔للّی کے دو پودے لال پھول والے ۔۔۔۔نیلوفر ۔۔۔موگرہ ۔۔۔سنبل۔۔اور سوسن۔۔۔ عشقِ پیچاں کی ایک بیل جو دیوار پر دور تک پھیل گئ تھی۔ ایک بار مالتی کی بیل لگائی تو وہ اس وقت تک تھی جب پاکستان آ رھے تھے۔ ایک طرف ٹین کا شیڈ اس طرف کچن یعنی باورچی خانہ تھا جس میں مٹی کا بہت بڑا چولھا بنا تھا کیا نفیس صنعت تھی۔ دو اےلوں کا چولھا۔ ایک نوکرانی مچھلی محلّے کی تھی جو روٹی چپاتی پکاتی۔ ویسے ایک نوکرانی پٹھانی بھی تھی جو ضعیف ھو گئی تھی۔ اس کا لڑکا ہاشم جو میرے چھوٹے بھائی تنویر نقوی ( جو آج کل لندن میں مستقل قیام پذیر ہیں )) ان کو گودیوں میں کھلانے کے لئے مامور تھا۔ تیسری نوکرانی جو نانھال کی طرف سے آئی تھی جس کا نام شاکری تھا۔ وہ کھانا بھی پکاتی اور چھوٹی بہنوں کی انّا بھی تھی۔
مکان میں بڑی برکت تھی جب چپ تعزیہ کا دن آتا تو الہٰ ّباد ۔۔کانپور ۔۔۔مصطفےٰ آباد۔۔۔رائے بریلی ۔۔۔انّاو کے رشتے دار آتے زیارت کرنے تو نویں کرکے جاتے اور سب اسی گھر میں مہمان ھوتے۔
باتھ روم نیچے تھا ۔۔گومتی کا ٹھنڈا پانی نلکے میں آتا۔ کیا موٹی دھار آتی تھی، واہ گرمیوں میں نہانے کا مزہ آتا۔ نلکا تو پنجابی لفظ تھا اصل میں اسے لکھنو میں بمبا بولتے تھے۔ بمبہ لفظ عربی کے لفظ منبع یا ینبع سے نکلا ھے۔ حضرت علیؑ نے مدینے میں جو چشمے جاری کئے تھے ینبع کے نام سے مشہور تھے۔ سادات یہ لفظ مدینےسے لائے تھے۔ ایسے بہت سے لفظوں پر بعد میں بات ھو گی جو سادات نے اردو کو دیئے ہیں۔
اب کھانے میں کیا کیا پکتا تھا۔ اس پر بات کرتے ہیں۔ روٹی تو گندم کی چپاتی پورے لکھنو میں رائج تھی ۔۔۔دالیں ۔۔۔۔۔ماش ۔۔۔۔چنا ۔۔۔ارہر ۔۔۔۔مونگ ۔۔۔۔مسور ۔۔۔مٹر ۔۔۔۔اب سنئے دالوں کا کیا حساب تھا ۔۔۔۔۔ارہر کی دال سب سے زیادہ مقبول تھی۔۔۔جسمیں صرف لسّن اور پسی لال مرچ پڑتی تھی اور نمک ۔۔۔مناسب ۔۔۔یہ دال لسّن سے بگھاری جاتی تھی۔ بہادر شاہ بادشاہ کے لئے اشرفی سے بگھارتے تھے ۔۔۔بگھار میں کبھی دو ہری مرچ یا لال مرچ دو عدد ساتھ رکھتے ۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ۔۔چاول بھی بنائے جاتے خشکہ ۔۔۔۔بادشاہ پسند ۔۔۔سیلا ۔۔ دیرا دون والا پکتا ۔۔۔۔۔ماش کی دال دو طرح پکتی تھی ۔۔۔ہلدی کے ساتھ اور ایک خشک صرف لال مرچ ادرک اور پیاز کا بگھار ۔۔۔۔اصلی گھی میں ۔۔۔۔۔ماش دو طرح کی ھوتی ایک۔دٙلی اور ایک بِنا دٙلی سبز یا کالی ماش ۔۔۔ سفید ماش میں پودینا پڑتا اور کالی ماش میں سویا پڑتا تھا۔ ایک دال جسےکیوٹی دال کہتے، یہ ارہر ماش ملا کر پکتی۔ اس میں ہری مرچ کٙٹی اور کٙٹی ادرک کے علاوہ کچھ نہ پڑتا۔ اس میں اصلی گھی میں پیاز کا بگھار لگتا تھا۔ چنے کی دال ۔۔میں ہلدی کا مسالہ ۔۔اوپر سے ادرک ہری مرچ پودینا ۔۔پیاز کا بگھار ۔۔ مٹر کی دال مسالے دار لیکن املی کا پنّا اس کے ساتھ میٹھا والا بنتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔مسور بھی دو طرح کی تھی ایک کالی مسور اور دوسری ملکہ مسور۔ اس میں بھی سویا ادرک اور ہری مرچ پڑتی تھی۔ ملکہ مسور بھی دو طرح پکتی ایک سادہ اور دوسری مسالے دار۔ مونگ کی دال بیماروں کی کہلاتی لیکن کبھی کبھی گرمیوں میں بن ہی جاتی ۔مونگ مسور ملا کر بنتی یہ آج بھی مقبول ھے۔ کھچڑی مونگ کی اچھی ھوتی۔ اریر ک کھچڑی اتوار کو بنتی اس کے ساتھ مولی اور مولی کے پتّے دھنیا ہری مرچ لسّن کی چٹنی ساتھ ھوتی اصلی گھی کا بگھار۔۔۔۔جمعرات کو دال کبھی نہ بنتی اور منگل کو بھی دال نہیں بنتی تھی۔ یہ دن کے کھانے تھے رات میں بکرے کا قورمہ یا آلو گوشت ۔۔شامی کباب ۔۔کوفتے ۔۔۔۔یا اسٹو ۔۔۔قیمہ میں مٹر ۔۔یاقیمہ پیاز. یا قیمہ آلو ۔۔۔یاقیمہ اور سیم کے بیج۔
اب سبزیوں کی بات ۔۔۔بھنڈی ۔۔۔تروئی ۔۔۔سیتا پھل ۔۔لوکی ۔ بیگن آلو۔۔۔مٹر آلو۔۔۔۔۔کنڈا ۔۔۔۔اروی ۔۔۔بنڈا فیض آبادی ۔۔آلو گاجر ۔۔مٹر ۔۔۔۔کٹھل کے کوئے ۔۔۔۔۔۔۔مچھلی کا قورمہ ۔۔۔۔گلاوٹ کے کباب بنتے ۔۔۔۔۔ساگ میں چولائی ۔۔پالک ۔۔۔قلفہ ۔۔چنے کا ساگ ۔۔۔میتھی ۔۔۔۔وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔مٹر پلاو ۔۔۔صرف پلاو ۔۔۔۔۔زردہ ۔۔۔شاہی ٹکڑے ۔۔۔گاجر کا حلوہ ۔۔۔لوکی کا حلوہ ۔۔۔۔ گرمیوں میں کچے آم کا گڑ سے گڑمبا ۔۔۔۔۔بیسن کی کڑھی ۔۔بیسن کے الٹے پلٹے ۔۔۔ماش کے رکھوش۔۔۔مختار پھلیاں ۔۔۔۔کروندے اور کمرک کا آچار ۔۔۔۔آم کا اچار۔۔۔نورتن آم کی چٹنی ۔۔۔۔آنولے کا مربہّ ۔۔۔۔لسوڑے یا کیتھے کی چٹنی۔۔۔۔ مہوّا کی لپسی ۔۔۔۔۔ کھانوں کے بعد اب پھلوں کی بات کرتے ہیں ۔۔۔اگلی قسط میں ۔۔۔۔۔۔
(اگلی قسط کبھی لکھی نہیں گئی۔ )
سید ضمیر اختر نقوی (22 جنوری 2020)
13 ستمبر 2020، یوم وفات علامہ ضمیر اختر نقوی، التماس سورہ فاتحہ۔
۔