بشکریہ ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری
سیدنا علی علیہ السلام کو مولا کہنے اور اسے ان کی خصوصی فضیلت قرار دینے پر کچھ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں؛ اس باب میں مختصر وضاحت پیش کی جا رہی ہے:
ایک اشکال یہ ہےکہ مولا کو اضافت کے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے؛ یعنی مولانا کہنا تو درست ہے مگر صرف مولا کہنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس اعتراض میں کوئی وزن نہیں کیوں کہ اصل بات متکلم کی مراد ومنشا ہے؛ اگر وہ اسے محبوب اور آقا کے معنی میں لیتا ہے تو دونو صورتوں میں جائز ہے یعنی اضافت کے ساتھ ہو یا اضافت کے بغیر۔ اور اگر متکلم کی مراد مولا سے متصرف فی الامور خصوصاً ما فوق الاسباب معاملات میں تو یہ محض خداوند کریم کی صفت ہے؛ کسی دوسرے کو اس اعتبار سے مولا نہیں کہہ سکتے ، چاہے اضافت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ اضافت کو ہر صورت میں لازم قرار دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی بھی لفظ جو خدا اور غیر خدا کے لیے مشترک ہو، وہ بلا اضافت نہیں بولنا چاہیے جیسے مثلاً وکیل اللّٰہ کا نام ہے اور عدالتوں میں بھی وکیل ہوتے ہیں، اب کیا یہ کہنا لازم ہے کہ فلاں شخص کا وکیل آیا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں: وکیل آیا ہے؟!!
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسے حضرت علی کی خصوصیت نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لفظ حدیث میں حضرت زید کے لیے بھی آیا ہے: انت اخونا و مولانا۔ یہ اعتراض قلت تدبر کا نتیجہ ہے کیوں کہ حضرت زید کو جس دوسرے معنی میں مولا فرمایا گیا اور وہ ہے: آزاد کردہ غلام، کہ سیدنا زید جناب رسالت مآب ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہی تھے؛ ورنہ تو اس اعتبار سے ان کی فضیلت سیدنا علی سے بھی بڑھ جاتی کیوں کہ ان کو مولانا کہا ہے یعنی اپنا مولا بھی قرار دیا ہے جب کہ سیدنا علی کو مولاہ کہہ کر مومنین کا مولا کہا ہے اور خود اپنی ذات مبارکہ کی جانب نسبت نہیں فرمائی۔
اسی تناظر میں ایک نکتہ یہ بھی اہم ہے کہ کسی خاص فضیلت کو رد کرنے کے لیے یہ ساری باتیں عموماً اہل بیت ہی کے حوالے سے کی جاتی ہیں لیکن دیگر صحابہ کے لیے ایسا نہیں ہوتا؛ مثلا ہم سیدنا ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کو صدیق اکبر کہتے ہیں اور کسی دوسرے صحابی کو تو کجا، نبی کریم ﷺ کے لیے بھی یہ لقب استعمال نہیں کرتے؛ تو کیا اس سے معاذاللہ یہ مقصود ہے کہ دوسرا کوئی صدیق نہیں، یا حضرت ابوبکر سے بڑا صدیق کوئی اور نہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، بس ایک خاص وصف میں ان کا امتیازی پہلو ہے۔ اسی طرح حضرت عمربن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کو ہم فاروق اعظم کہتے ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ کیا حق و باطل میں فرق کرنے میں ان سے کوئی ہستی بڑی نہیں؟ حالاں کہ رسول اکرم یقینا ان سے بڑے فاروق ہیں مگر جناب عمر کے لیے گویا یہ ایک امتیازی شان ہے اور بس۔ یہی بات مولا کی ہے کہ من کنت مولاہ۔۔ کے اسلوب میں یہ لفظ صرف جناب علی کے لیے آیا ہے نہ یہ کہ کسی دوسرے کو مولا کہنا ممنوع ہو گیا ہے!!
ایک پہلو یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ اس سے شیعہ غلط معنی لیتے ہیں،اس لیے ہمیں اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔ یہ بھی کم زور اعتراض ہے کیوں کہ ایک ہی لفظ کو مختلف گروہ مختلف معانی میں استعمال کر لیتے ہیں اور اس سے اپنا مفہوم مراد لیتے ہیں جیسے مثلاً خدا کا لفظ، یہ غیر مسلموں کے ہاں مطلق معبود کے معنی میں ہے جب مسلمانوں کے نزدیک صرف معبودِ برحق ہی اس سے مراد ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ دوسرے معنی کی تعیین کر دے۔