غازی علم دین کے مقدمے میں بطور وکیل قائد اعظم

غازی علم دین کے مقدمے میں بطور وکیل قائد اعظم نے بنیادی طور پر یہ ثابت کرنا چاہا کہ علم دین قاتل ہے ہی نہیں، کیونکہ شہادتیں ںاقص ہیں۔ عدالت کی یہ کارروائی روزنامہ انقلاب میں شائع ہوئی، اور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی اس کا ذکر ہے۔ لیکن جب اس نکتے پر عدالت مطمئن نہ ہوئی تو علم دین کی نوجوانی اور کم عمری کی بنیاد پر سزا کی معافی کی استدعا کی گئی، لیکن عدالت نے وہ بھی منظور نہیں کی۔

سوال یہ ہے کہ قائد اعظم یہ سب کچھ اپنی طرف سے کہہ رہے تھے یا موکل کی رضامندی اس میں شامل تھی؟ اگر شامل تھی تو اس فعل کو باعث اجر سمجھتے ہوئے علم دین اسے قبول کرنے سے کیوں منکر تھا؟ اور پھر اپنی ناسمجھی کو بنیاد بنا کر سزا کی معافی کیوں چاہتا تھا؟

عمار خان ناصر