غامدی صاحب ودیگر کچھ حضرات ملوکیت کی سیاسی و معروضی جواز وناگزیریت کی جو بحث اٹھاتے ہیں وہ اول وآخر ” مفروضات ” پر مبنی ہے ۔ ان کے مطابق
(1) اقتدار بنو امیہ سے باھر جاتا تو ” خانہ جنگی ” کا خطرہ تھا ۔
(2) سلطنت کے پھیلاو نے از خود ملوکیت کی ضرورت پیدا کر دی تھی ۔
(3) خلافت راشدہ کا نظام ممکن نہیں رھا تھا ۔
لیکن خود ملوکیت نے جو نتائج پیدا کیے ان کے سامنے ان “مذکورہ مفروضات” کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے
کہ !!
(1) خانہ جنگی تو پھر بھی ہوئی ، اور بدترین صورت میں ھوئی کہ تقدسات تک پامال ھوئے ۔
(2) ریاست کے اندر ریاستیں بھی تشکیل پائی ۔
(3) تہذیبی اور ملی سطح پر مستقل تقسیم وتفریقات پیدا ھوئیں ۔
(4) امت کی داخلی یکجہتی واتحاد سبوتاژ ھوا ۔
(5) حج جیسی اجتماعی عبادت کی قیادت کے دعوے دار پانچ طبقات اور جھنڈے ابھرے ۔
غامدی صاحب خلافت راشدہ کے معیاری نظام کے مقابلے میں ملوکیت کے غیر معیاری نظام کے جواز کے جو اسباب ووجوہات گنواتے ہیں وہ تو پھر بھی پیدا ھوئے ۔
یعنی
جن ضرورتوں ، جن حکمتوں ، جن خطرات ، جن ملاحظات کے سبب آپ نے ملوکیت کے دلائل تراشے وہ سب چیزیں تو پھر بھی ھوکر رہی اور زیادہ شدت کے ساتھ ھوئیں ۔
نتائج کی یہ دنیا ملوکیت کے جواز کی تمام دلیلوں اور عذروں کی بیخ کنی کرتی ہے اور ان نتائج سے صرف نظر تجاھل عارفانہ ھی نہیں طرز مجرمانہ بھی ہے ۔
علی شاہ کاظمی
۔۔۔۔۔
حدیث عمار رضی الله کا انکار اور بنو امیہ کے ملوک کا دفاع – جناب جاوید غامدی کے جواب میں جناب انجنیئر محمد علی مرزا کا استدلال