غامدی صاحب کی عجیب و غریب خواہش

کل میں نے غامدی صاحب کا انتہائی پر اثر بیان سنا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ابتداء وحی کا واقعہ جو کتب حدیث میں آتا ہے وہ منقطع ہے. یعنی اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے براہ راست کسی بھی صحابی یا صحابیہ نے اس طرح بیان نہیں کیا کہ وہ کہتی ہوں کہ میں نے رسول اللہ کو نزول وحی کا آغاز بیان کرتے ہوئے سنا. نیز جن افراد کو اولین راوی ہونا چاہیے تھا یعنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ، ورقہ بن نوفل، یا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بلکہ بعد کے دور کے سابقین اولین بھی یہ واقعہ بیان نہیں کرتے اور جن رواۃ سے بیان ہوا ہے ان کے اور رسول اکرم کے درمیان راوی معلوم نہیں ہیں. اس کے نتیجے میں احادیث میں بیان ہونے والے واقعات کی صحت کو انہوں نے مستند قرار نہیں دیا.

اسی طرح کا ایک قصہ جمع و تدوین قرآن کے حوالے سے ہے جس میں روایت زھری کی برکت سے قرآن کی دو گمشدہ آیات دریافت ہو گئ تھیں.

واقعہ یہ ہے کہ جس نے قرآن بھیجا یا نبوت دی وہ ایسی علیم و حکیم ذات ہے کہ اس نے ہزار ہا سال بعد میں پیدا ہونے والے کسی اشکال کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی. کیا نزول وحی کی اکلوتی راوی خدیجہ، یا ابوبکر یا علی ہوتے تو اس واقعہ کا استنادبآسانی چیلنج نہ ہو جاتا . اللہ نے اس واقعہ کو اس قدر عام کر دیا تھا کہ ہر شخص یا تو اس کی تائید کر کے اس کی صداقت کا گواہ بن گیا یا اس کا انکار کر کے آپ کے دعوے نبوت کا گواہ ہو گیا. یعنی ماننے اور نہ ماننے والے دونوں یہ مانتے تھے کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے. ٹھیک اسی طرح آپ نے قرآن حکیم کا ایک نسخہ یا ایک دستاویز نہیں دی تھی بلکہ سینکڑوں سینوں اور دستاویزات کی شکل میں پورا قرآن فرسٹ کاپی کے طور پر دیا تھا.

جن دو امور پر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تواتر کی تعریف صادق آتی ہے اسے آپ کہتے ہیں کہ اگر خبر واحد متصل کے طور پر ثابت ہو تو ہم مستند سمجھیں گے.

طفیل ہاشمی