مکہ تو اسی روز ہتھیار ڈال چکا تھا جب حدیبیہ کے مقام پر سردارن قریش اپنے اس دعوے سے دست کش ہو کر معاہدہ کرنے آ گئے تھے کہ یہ ہمارے قبیلے کے چند بے راہ رو افراد ہیں جنہیں گرفتار کر کے سزا دینا ہمارا سماجی اور قانونی حق ہے. دو سال کی مہلت دراصل خیبر سے آنے والی ممکنہ اور متوقع امداد کو ہمیشہ کے لیے منجمد کر دینے کی فرصت تقدیر تھی.
فتح خیبر کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہا تھا کہ دشمن پیٹھ میں خنجر بھونک سکتا ہے.
پھر اس عرصے میں دوسرے درجے کی مکی قیادت کو از سر نو سوچنے اور نظر ثانی کرنے کا موقع ملا. خالد بن ولید اور عمرو بن العاص نے مستقبل کی روشن شاہراہ دیکھ لی اور راستہ بدل لیا. قبائلی معاشروں میں اس طرح کے افراد دو فرد نہیں ہوتے وہ اجتماعیت میں شگاف، سوچ کے دھارے بدلنے اور پیچھے رہ جانے والوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں. مدینہ نے جس گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اس کی خبر قرشی خیموں پر بجلی بن کر گری ہوگی. اس نازک وقت میں منافقین کی گروہ در گروہ موجودگی کے باوجود خبر افشا ہونے سے روکے رکھنا اور حاطب بن ابی بلتعہ سے درگزر کرنا قیادت کی دانش کی وہ بلندی ہے جہاں بشری اور الوہی دائرے گڈمڈ ہونے لگتے ہیں.
اچانک ہزارہا الاؤ دیکھ کر قرشی قیادت کا حواس باختہ ہوجانا فطری تھا، لیکن جن کی آنکھیں ہنوز آفتاب کی روشنی کو دیکھنے سے انکار کر رہی تھیں انہیں اس میں بھی شاہی جاہ و جلال ہی نظر آیا. مصطفوی نگاہوں کی اثر آفرینی دیکھئے کہ کل تک خالد جن کی طرف سے شمشیر برہنہ تھے آج وہی ان کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں تھے.
انسانی تاریخ نے امن بخشی اور رحم دلی کا اس سے بڑا مظاہرہ کبھی دیکھا تھا نہ دیکھے گی، بدترین دشمنوں کے گھروں کو پناہ گاہ بنا دیا گیا.
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ طلقاء کا کیا مطلب ہے؟
طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اپنے جرائم کی وجہ سے سزائے موت یا غلامی کے سزاوار ہوں اور انہیں ترس کھا کر چھوڑ دیا جائے.
وقت تھا کہ کہا جاتا، جو کلمہ پڑھ لے اس کی جان بخشی ہو جائے گی
لیکن
ایسا نہیں کیا گیا. اس سے لا اکراہ فی الدین پر حرف آتا تھا، رحمۃ للعالمینی پر سوال اٹھتا تھا
مستقبل کا مورخ فتح مکہ کی تاریخ سیاہ حروف سے لکھتا.
حالانکہ
دانش نبوت دیکھ رہی تھی کہ قیادت کے شناور عقیدے کی صداقت کے بجائے اقتدار کی امید سے وابستہ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں.
جو لوگ اسے قریش کی داخلی جنگ سمجھتے تھے، یکسو ہو گئے اور جو کعبہ کے خداؤں سے امیدیں لگائے ہوئے تھے مایوس ہوگئے.
رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا
کی دعا فتح مبین کی صورت میں متشکل ہو گئی.
طفیل ہاشمی