قرآن کے ساتھ پہلا ظلم
قرآن کے علاوہ دنیا میں کسی کتاب کو بے سمجھے پڑھ کر اس سے مستفید ہونے کا نظریہ موجود نہیں ہے. اس کی تلاوت عام کرنے سے اللہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ لفظا لفظا محفوظ رہے اور اسلامی برہمن اسے تبدیل نہ کر سکیں ، ہر کسی کی دست رس میں ہو، اسے دنیا کی ہر کتاب کی بہ نسبت آسان رکھا گیا تاکہ ہر فرد اس سے ہدایت حاصل کر کے اپنی سوچ اور عمل کو درست رکھ سکے، اس پر احبار و رہبان اور برہمنوں کی اجارہ داری نہ ہو.
ہاں اس کی دوسری جانب اتنی بلندیاں اور پہنائیاں بھی رکھ دی گئیں تاکہ بحر علم کے شناور اپنی سیرابی کا اہتمام کر سکیں. لیکن ان کا عام اور سادہ طرز حیات سے کچھ زیادہ تعلق نہیں.
لیکن
اسلامی برہمنوں نے لوگوں کو قرآن بے سمجھے پڑھنے پر لگا دیا اور انہیں یہ باور کروا دیا کہ ہمارے بغیر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا
گویا
اللہ کا یہ ارشاد درست نہیں کہ ولقد يسرنا القرآن للذكر….
ہماری مادی زندگی کا دار و مدار زمین پر ہے ، ہم اپنی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات بہت آسانی سے سطح زمین سے حاصل کرتے ہیں، اس پر چلتے پھرتے ہیں اس سے خوراک، پانی، پھل سبزیاں اور گوشت وغیرہ حاصل کرتے ہیں. ہر شخص معمولی محنت سے یہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے. لیکن زمین تہ در تہ خزانوں کا منبع ہے جو لوگ اس سے قیمتی پتھر، سونا لوہا کوئلہ اور تیل وغیرہ نکالنا چاہتے ہیں اس کے لیے مختلف علوم اور مہارتوں کے محتاج ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص زمین کو چلنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ نہیں بتایا جائے گا کہ زمین سے سونا نکالنے کے لیے فلاں فلاں مہارتوں کی ضرورت ہے.
ٹھیک اسی طرح
قرآن حکیم ایک تہ در تہ کتاب ہے. اس کی بالائی سطح چند عقائد، چند عبادات، چند اشیاء کی حلت و حرمت اور چند ایک اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے. اس کی ہر فرد کے لیے وہی اہمیت ہے جو مادی زندگی کے لیے زمین کی ہے اور اسے اسی طرح ہر فرد کی دست رس میں ہونا چاہیے جس طرح زمین ہے. اس نوع کا علم جو ہر فرد کے لئے ضروری ہے عام ہونا چاہیے اور ہر فرد کے لیے اس سطح پر قرآن کی تعلیم Available ہونا ضروری ہے. اس سطح پر لوگوں کو قرآن سے دور کر دینا اور یہ تاثر دینا کہ قرآن کسی سطح پر بھی عوام کے لئے قابل فہم نہیں ہے ایک مجرمانہ رویہ ہے. جو مسلمانوں میں ہندو دھرم، یہودیت اور مسیحیت سے در آیا ہے اور قرآن نے اس کی مذمت کی ہے.
قرآن کی بہت سی سطحیں ایسی ہیں جن سے آگاہی کے لیے مختلف علوم میں مہارت کی ضرورت ہے اور اس کی جو فہارس بنائ گئی ہیں وہ نامکمل ہیں. جس پہلو سے قرآن کا کوئی طالب علم اجتہادی مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے اسی پہلو سے مطلوبہ علوم میں درجہ اول کی مہارت درکار ہوتی ہے
لیکن
ستم یہ ہے کہ ہم نے ایک طرف فہم قرآن کے لئے ان علوم کی شرائط عائد کی ہیں جو اجتہاد کے لیے ضروری ہیں اور دوسری طرف قرآن سے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے دیوار چن دی ہے، جس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے قرآن اور اس کے مخاطبین کے درمیان سے صوتی لہروں کا رابطہ کاٹ کر بیچ میں حاجز کھڑے کر دئیے.
قرآن کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ یہ کتاب جس کی تعلیمات تمام تر دنیوی زندگی سے متعلق تھیں کہ پیدائش سے لے کر وفات تک کی زندگی کے ہر ہر پہلو کے بارے میں ہدایات، اسے دنیوی زندگی سے بے دخل کر کے آخرت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا. اسے بے سمجھے پڑھتے رہو اس کا ثواب آخرت میں ملے گا. دنیا میں حرام کھاؤ حرام کاریان کرو، ظلم و ستم کے بازار گرم کرو لوگوں کی جان و مال آبرو سے کھیلتے رہو، حرام کامال جمع کرو. مرنے کے بعد اولاد مدرسہ میں لاکھ روپے جمع کروا کر بیس ہزار ختم قرآن لا کر ایصال ثواب کر دے گی ، بس بلا حساب کتاب جنت منتظر ہوگی. مجال ہے جو کسی کو روکنے کی جرات ہو.
قرآن آخرت کے لیے نازل ہی نہیں ہوا تھا. آخرت تو عقیدہ و عمل کی جگہ نہیں، وہ تو نتائج و عواقب کی جگہ ہے. قرآن یہ بتانے کے لیے نازل ہوا تھا کہ دنیا میں کیسے رہو تاکہ تمہاری آخرت تابناک ہو سکے.
قرآن کے ساتھ تیسرا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ اس کی آیات و سور کو وظائف، تعویذات اور عملیات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے. یہ بقول مولانا خان محمد رح ٹھیک اس طرح ہے جیسے قرآن پر کھڑے ہو کر طاقچے سے روٹی اتارنا یا بقول مولانا مودودی رح طب کی کتاب کا نسخہ یاد کر کے یا گھول کر پی لینے سے یہ سمجھنا کہ صحت لوٹ آئے گی. جو کتاب آپ کو سمندر بخشنے کے لیے تیار تھی اس سے آپ نے قطرہ شبنم حاصل کرنے پر اکتفا کیا.
اس میں شبہ نہیں کہ الفاظ اپنے اندر اثرات رکھتے ہیں اسی لئے گالی کھا کر لوگ بے مزہ ہو جاتے ہیں
لیکن
اس کے پیچھے اصل فلاسفی بالکل مختلف ہے اور وہ یہ کہ انسان کا وجود در حقیقت ایک Image ہے جو اپنے خالق سے وابستہ ہے. جب انسان اپنے اندر موجود خالق کی قوت کو activate کرتا ہے اور اپنی پوری توجہ اسی پر مرکوز کر دیتا ہے تو حسب خواہش نتائج پیدا ہونے لگتے ہیں. ہر مذہب کے یوگی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں. کتاب اللہ کے الفاظ کو سفلی مقاصد کے لئیے استعمال کرنا Blasphemy کیوں نہیں.
قرآن کے ساتھ چوتھا اور سب سے بڑا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ قرآن کے محکمات کو ضعیف روایات کی سان پر چڑھا کر اس میں تاویلات کی نقب لگا کر تحریف کتاب کی یہودیانہ روش کو promote کیا جا رہا ہے
لیکن
یہ موضوع حساس بھی ہے اور تفصیل طلب بھی
زندگی نے وفا کی تو اس پر مفصل کتاب لکھنے کا ارادہ ہے.
طفیل ہاشمی