انگریزی کا مقولہ ہے
(Familiarity Breeds Contempt)
یعنی ۔ ۔ ۔ “قربت، حقارت کو جنم دیتی ہے”۔ ہم جس قدر کسی کے قریب ہوتے ہیں اتنا ہی اس میں غلطیاں تلاش کرنے کا رجحان اور امکان بڑھ جاتا ہے۔
کئی بار یہ گمان ہو تا ہے کہ ہمارے ہاں یہ محاورہ اس بات کی کسوٹی بن سکتا ہے کہ کون کون درحقیقت مسلمان ہے۔
آپ دیکھیے، جس شدومد سے تکفیر و تحقیر کے نعرے مسلمان گروہ ایک دوسرے کے لیے بلند کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ان کے خلاف نہیں کرتے جو سکہ بند غیر مسلم ہیں۔ بلکہ ان کی تو بات بھی بڑے غور سے سنتے ہیں، ان کی کتابوں سے علم سمیٹنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور ان کا اور انکے قوانین و روایات کا احترام بھی خوب کرتے ہیں۔
دوسری جانب، جو درحقیقت قریب ہیں ان سے دوریوں کے دعوے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جیسے وراثت کے دعویدار خون کے رشتوں میں بندھے ہونے کے باوصف کشت و خون میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی جھگڑا وراثت کا ہی ہے۔ مال کا نہ سہی، ٹھیکیداری کا سہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جیسے عوام اس بات کو سمجھ لیں کہ جس کے خلاف اس قسم کے غیر سرکاری فتوے سامنے آئیں اسے بلا جبر و اکراہ اور برضا و رغبت مسلمان سمجھیں اور اس سے اپنے قلبی تعلق کو فروغ دیں۔
باہمی تقسیم اور اور منافرت کا خاتمہ صرف اور صرف عام مسلمان کے ہاتھ میں ہے، اس کی امید ان ٹھیکے داروں سے مت کیجیے جو درحقیقت اس کے اصل ذمہ دار ہیں اور جن کا مطمع نظر صرف اپنا مفاد اور اپنی دکانداری ہے.
ہم عام مسلمان صرف مزدور ہیں۔ تقسیم کو قائم رکھنے میں ہمارا خون اور پسینہ سکتا ہے اور فائدہ چند پیشواؤں کا ہوتا ہے۔ جب مزدوری کرنا ہی مقدر ٹھہرا، پھر کیوں نہ صرف اللہ تعالی کی کریں ۔۔۔ جس کے ہر حکم کا مقصد صرف اور صرف ہماری بھلائی ہے، جو ہمیں ان فضول تقسیموں سے روکتا اور رواداری و احسان کا حکم دیتا ہے.
عاصم اللہ بخش