لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

اَلبحرُ عَلاَ و الموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا۔ سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں۔ میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے۔ بھنور میں پھنس گیا ہوں، ہوا بھی مخلالف سمت ہے۔ آپ میری کشتی کو پار لگا دیں۔ اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ۔ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی۔ آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہے۔ آپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش) ہے۔ آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں۔ میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے، اے زلف پاک، اے رحمت کے بادل برسانے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا۔ اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں۔ میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے۔ افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدینہ آ رہا تھا۔ دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہوں۔ اے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے۔ میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں۔ میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں۔ رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے۔ دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی۔

– اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ