محمد بن عبد الوہاب نجدی اور عصبیت

تاریخ میں کسی حوالے سے نمایاں ہو جانے والی شخصیات کا عمومی امیج کیا ہے، اس میں عصبیت اور سیاسی عوامل کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ کسی کو عصبیت مل جائے تو ماحول کی حساسیتوں اور تقاضوں کے مطابق اس کی امیج سازی، متبعین کر لیتے ہیں۔ عصبیت نہ مل سکے تو جو امیج مخالفین بنائیں گے، وہی معروف اور مسلم مانا جائے گا۔ تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ نکتہ ملحوظ رکھنا اہم ہے۔

معاصر تاریخ میں اس کی دو سامنے کی مثالیں بات سمجھنے میں مدد دیں گی۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی (اللہ تعالی مغفرت فرمائے) دور جدید میں عام مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کے رجحان کے اصل احیاء کنندہ تھے۔ برصغیر اور باقی عالم اسلام میں مابعد دور کی ساری تکفیری جماعتیں انھی کے انداز فکر کا فیضان ہیں۔ لیکن چونکہ شیخ کو ایک مضبوط سیاسی عصبیت میسر ہے، اس لیے ان کی شخصیت کا یہ پہلو تدریجا مخفی کر دیا گیا ہے اور تعارف میں توحید واتباع وسنت اور ازالہ بدعات کا پہلو نمایاں کر دیا گیا ہے۔ اب اگر ان کی فکر کے تکفیری پہلو کا ذکر بھی کیا جائے تو سلفی دوست سخت ناراض ہو جاتے ہیں، اور ان کی فکر پر قائم مذہبی ریاست تو اب باقاعدہ اس تکفیری فکر کے خلاف ایک فریق بن کر سامنے آ رہی ہے، کیونکہ دوسروں کے خلاف لگائی گئی آگ گھر تک پہنچنے لگی تھی۔ شیخ کا امیج معاصر علماء کی نظر میں کیا تھا، اس کے لیے علامہ شامی کی رد المحتار کا ایک اقتباس بطور نمونہ منسلک ہے۔

تاریخ میں یہ عمل ہوتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ طلبہ تاریخ ان کو روک نہیں سکتے، البتہ نظر ضرور رہنی چاہیے۔

عمار خان ناصر