اللہ اپنی ابدی اور لازوال کتاب میں خود جن کا مدح سرا ہے، اس نے جن السابقون الاولون کو نہ صرف اپنی بلکہ دوطرفہ رضامندی کی سند دی، جن کے ایمان کو معیار ایمان قرار دیا، جن کی بیعت رسول کو براہ راست اپنے ہاتھ پر بیعت بتایا حتی کہ اس درخت کو بھی ابدی زندگی بخش دی جس کے نیچے وہ بیعت کر رہے تھے، ان کے ظاہر ہی نہیں باطن کی پاکیزگی کی بھی گواہی دیتے ہوئے فرمایا :أولئك الذين امتحن اللہ قلوبهم للتقوى. جنہیں ذکر رسول کے ساتھ، والذين معہ، کے اعزاز سے نوازا، جن کو أولئك ھم الراشدون کہا، کیا انہیں آپ کے دفاع کی ضرورت ہے. اعتراف کیجئے کہ یہ، کلمۃ حق ارید بھا الباطل، ہے کہ اللہ نے قبل فتح اور بعد فتح کی لکیر کھینچ کر جو بتایا تھا کہ قبل فتح والے ہر آزمائش میں پورے اترے، بعد فتح والوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی آمد سیاسی یا سماجی حالات کے دباؤ کا نتیجہ نہیں تھی، کتنے اس آزمائش میں سرخرو ہو کر وعدہ حسنی کے حق دار ٹھہرے اور کتنے الٹے پاؤں پھر گئے.
منصب صحابہ کا انکار قرآن کا انکار ہے لیکن ہمارے عہد میں مدح صحابہ اور دفاع صحابہ کے عنوان سے اس لکیر کو مٹانے اور اگلوں کو پیچھے اور پچھلوں کو آگے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
اور صدیق اکبر نے فرمایا تھا
اینقص الدین وانا حئ
……………………… بخدا ،یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
طفیل ہاشمی