مرثیہ امام حسین علیہ السلام – فیض احمد فیض

مرثیہ امام حسین علیہ السلام

‎بزبان فیض احمد فیض۔

‎رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

‎ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

‎مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

‎مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

‎تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

‎یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

‎دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

‎پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

‎ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

‎یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

‎رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

‎تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

‎اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

‎اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

‎تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

‎اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

‎مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

‎ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

‎کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

‎ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

‎ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

‎ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

‎پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

‎پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

‎الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

‎الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

‎بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

‎وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

‎بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

‎باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

‎پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

‎اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

‎نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

‎شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

‎دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

‎خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

‎پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

‎تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

‎ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

‎یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

‎کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

‎خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

‎فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو

‎حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

‎واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

‎معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

‎کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

‎معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

‎سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

‎اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

‎زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

‎جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

‎سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

‎اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

‎طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

‎باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

‎انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

‎ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

‎جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

‎جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

‎تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

‎تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

‎جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

‎جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

‎نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

‎نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

‎کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

‎پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

‎قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

‎خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

‎مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

‎اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا۔

‎”فیض احمد فیض”