مسئلۂ فلسطین کے متعلق مغالطے

ڈاکٹر محمد مشتاق

محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اپنی وال پر مسئلہ فلسطین سے متعلق فکری مغالطوں پر ایک سیریز شروع کر رکھی ہے۔ ان میں سے پہلی تین پوسٹیں درج ذیل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسئلۂ فلسطین کے متعلق مغالطے

ڈاکٹر محمد مشتاق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا مغالطہ:

قرآن مجید میں مسجدِ اقصیٰ سے مراد مدینہ منورہ ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مغالطہ کہ سورۃ بنی اسرائیل میں مسجدِ اقصیٰ سے مراد مدینہ منورہ اور اسراء سے مراد سفرِ ہجرت ہے، کوئی نیا مغالطہ نہیں ہے۔ پرویز اور دیگر منکرینِ حدیث ایسے شوشے پہلے بھی چھوڑتے رہے ہیں۔

(جاوید غامدی بھی اسی طرح کے خیالات کا پرچار کرتے ہیں)

اس طرح کے مغالطوں کے جواب میں سب سے پہلے یہ بات صاف کرنی چاہیے کہ ایسی بات کرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم؟ یہ بات صاف کرنی اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان سے بحث اور طریقے سے ہوتی ہے اور ٖغیر مسلم سے اور طریقے سے۔

مسلمان یہ مانتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کےلیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری کیا کیونکہ انبیاء و رسل کے بغیر انسان ہدایت نہیں پاسکتا تھا۔ وہ یہ بھی مانتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کی لائی ہوئی ہدایت تاقیامت محفوظ رہے گی۔ ان دونوں باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ماننا ہے کہ امت کا متوارث علم اور فہم غلط نہیں ہوسکتا؛ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن کا متن تو محفوظ رہے لیکن مسلمانوں سے اس کا مفہوم گم ہوجائے اور پھرصدیوں بعد کہیں وہ اصل مفہوم دوبارہ دریافت کیا جائے۔

چنانچہ کسی مسلمان کےلیے یہ ماننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جسے امتِ مسلمہ ہمیشہ سے مسجدِ اقصیٰ کہتی اور مانتی آرہی ہے، وہی مسجدِ اقصیٰ ہے۔ اگر کوئی شخص امت کے اس متوارث فہم کو غلط کہہ رہا ہے، تو بارِ ثبوت اسی پر ہے؛ یعنی ہم سے یہ مطالبہ ہی غلط ہے کہ ہم ثابت کریں کہ مسجدِ اقصیٰ کو ہم مسجدِ اقصیٰ کیوں کہتے ہیں؟ اس کے برعکس مطالبہ اس سے کیا جائے گا کہ وہ ثابت کرے کہ اسے مسجدِ اقصیٰ کیوں نہ کہا جائے؟ اور ایسا ثابت کرنے کےلیے اسے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ امت کا یہ متوارث فہم کب سے غلط ہوا؟ کہاں امت کو ٹھوکر لگی اور کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کثیر تعداد میں صحابہ کی موجودگی میں شام کا سفر کرنا پڑا اور وہاں پورے اہتمام سے مسجد آباد کرنی پڑی؟ آخر کیوں امویوں کو وہاں مسجد بنانی پڑی؟ آخر کیوں امت مسلسل اسے مسجدِ اقصیٰ اور قبلۂ اول کہتی اور مانتی آئی؟ وغیرہ۔

اس اصولی بات، اورfrontal attack کے بعد چند نکات کی طرف توجہ کیجیے تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی ہی نہ رہے۔

1۔ سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں المسجد الاقصیٰ کی صفت یہ ذکر کی گئی ہے:

الذی بارکنا حولہ (جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی)

یہ ترکیب قرآن کریم میں چار مزید مقامات پر استعمال ہوئی ہے اور ہر جگہ صرف ایک ہی سرزمین کےلیے استعمال ہوئی ہے، یعنی بلاد الشام۔

الف۔ چنانچہ سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں سکونت کی توفیق دی گئی جس کے اردگرد کو اللہ تعالیٰ نے برکت بخشی ہے:

و اورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشٰرق الارض و مغٰربھا التی بارکنا فیھا۔ (آیت 137)

ب۔ اسی طرح سورۃ الانبیآء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ظالم قوم سے نجات دلا کر اس سرزمین میں لے گیا جس میں اس نے سب جہانوں کےلیے برکتیں رکھی ہیں:

و نجینٰہ و لوطاً الی الارض التی بارکنا فیھاللعٰلمین۔ (آیت 71)

(نوٹ: اس آیت میں للعٰلمین پر نظر رہے اور اس پر بھی نظر رہے کہ اس سورت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کو رحمۃً للعٰلمین قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ سرزمین تو عالمین کےلیے برکت ہے اور آپ عالمین کےلیے رحمت ہیں!)

ج۔ اسی سورۃ الانبیآء میں آگے حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے ہوائیں یوں مسخر کی تھیں کہ وہ ان کے حکم پر اس سرزمین کی طرف چلتی تھیں جس میں اللہ نے برکتیں رکھی ہیں:

ولسلیمٰن الریح عاصفۃً تجری بامرہ الی الارض التی بارکنا فیھا۔ (آیت 81)

د۔ سورۃ سبا میں اس سرزمین کی ایک اور واضح نشانی یوں بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ سبا کے مسکن (یمن) اور برکت والی سرزمین کے درمیان سرِ راہ بستیاں آباد کیں اور سفر کی منزلیں ٹھہرادیں:

و جعلنا بینھم و بین القری التی بارکنا فیھا قریً ظاھرۃً و قدّرنا فیھا السیر۔ (آیت 18)

ان چاروں مقامات پر جس طرح اس سرزمین سے مراد بلاد الشام اور فلسطین کا علاقہ ہے، اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل میں بھی المسجد الاقصا الذی بارکنا حولہ سے مراد بھی وہی مسجد ہے جو اس علاقے میں تھی۔

2۔ اس کے علاوہ اسراء اور معراج کے متعلق صحیح احادیث بھی بکثرت موجود ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی شبہے کےلیے کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی۔

3۔ سورۃ بنی اسرائیل میں آگے مسلسل جس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ تفصیلی بحث ہوئی اور ان پر شدید تنقید کی گئی ہے، وہ اس حقیقت کےلیے مزید دلیل بن جاتی ہے ۔

4۔ یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ اس وقت مسجد تھی ہی نہیں تو اسے مسجد کیوں کہا گیا؟ ایک تو قرآنِ کریم میں مسجد کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کےلیے ہی نہیں آیا، بلکہ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں یہ محض عبادت گاہ کے مفہوم میں ہے، خواہ وہ عبادت گاہ کفار کےکنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں، جہاں تقابل کےلیے کئی الفاظ آئے ہیں، تو اس ایک مقام پر یقیناً مساجد سے مراد مسلمانوں ہی کی مساجد ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہود و نصاری میں کفر، شرک یا بدعات تو بعد میں آئی ہیں اور اصلاً تو یہ مسلمان ہی تھے اور ان کی عبادت گاہیں اصلاً مساجد ہی تھیں۔ اسی لیے اسی سورۃ بنی اسرائیل میں اس آیت سے صرف5 آیات کے بعد آیت 7 میں اسی مقام کو، یعنی یہود کی عبادت گاہ کو، مسجد کہا گیا ہے:

ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃٍ ۔

(تاکہ وہ اس مسجد میں فاتحانہ داخل ہوں، جیسے وہ پہلی دفعہ داخل ہوئے تھے ۔)

اگر اس آیت میں مسجد سے مراد وہ ہیکل ہے جو فلسطین میں تھا، اور یقیناً وہی مراد ہے، تو 5 آیات پیچھے اسی سورۃ کی پہلی آیت میں اسی مقام کو مسجد کہنے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟

باقی رہا یہ سوال کہ یہ مسجد کب بنی اور کب اس نے قبلے کی صورت اختیار کی ، تو اس پر ہم اگلی قسط میں گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا مغالطہ:

مسجدِ اقصیٰ تو کبھی قبلہ رہا ہی نہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ایک دفعہ یہ دکھایا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا سفرِ معراج جس مسجدِ اقصیٰ سے شروع ہوا تھاوہ بیت المقدس ہی ہے، تو اس کے بعد دوسرا مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا مرکز کعبہ تھا، تو بیت المقدس کب مرکز بنا اور کیسے قبلہ کہلایا؟ اس سوال سے مقصود یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو کبھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہی نہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کی روایت اور تاریخ کو غلط ثابت کرکے قرآن کی من مانی تاویل کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا مرکز کعبہ تھا، تو قرآن و سنت کے ماننے والوں کےلیے تو یہ ایک مسلّم حقیقت ہے۔ البتہ یہ سوال کہ بنی اسرائیل کا تعلق کب کعبہ سے ٹوٹ گیا، دراصل بنی اسرائیل کی کتب مقدسہ اور ان کی تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ اصل حقیقت تک رسائی کےلیے درج ذیل نکات پر غور کریں:

1۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ بنی اسرائیل آپ کی اولاد کو کہا جاتا ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن کریم کے اشارات اور احادیث کی تفصیلات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے والد حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ کنعان (فلسطین) میں مقیم تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مکہ میں آباد ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد سمیت مصر ہجرت کرگئے جب آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو وہاں اقتدار نصیب ہوا۔ اس کے بعد اگلے تقریباً پانچ سو سال تک بنی اسرائیل مصر میں مقیم رہے۔ ابتدائی کچھ عرصہ خوشحالی کا تھا لیکن مصری نسل پرست گروہ کی حکومت آگئی اور ان کے بادشاہوں (فرعونوں) نے بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانے شروع کیے۔ انھی مظالم کے دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور پھر اس وقت کے فرعون کے ساتھ آپ کی کشمکش ہوئی۔ اس کشمکش کے دور میں بنی اسرائیل میں اجتماعی نظم پیدا کرنے کےلیے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ مصر میں عبادت کےلیے کچھ گھروں کو خاص کردیں اور اپنے گھروں کو قبلے کی حیثیت دے دیں۔

واوحینا الی موسیٰ واخیہ ان تبوّاٰ لقومکما بمصر بیوتاً واجعلوا بیوتکم قبلۃً، واقیموا الصلوۃ۔ (سورۃ یونس، آیت87)

بائبل میں موجود اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلے کا رخ بہرحال کعبہ ہی کی طرف بنتا تھا۔

2۔ پھر جب بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی اور انھیں مقدس سرزمین میں داخلے کا حکم دیا گیا، تو انھوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور جہاد سے گریز کی راہ اختیار کی۔ اس پر انھیں چالیس سال تک صحرانوردی کی سزا سنائی گئی۔ اس صحرا نوردی کے دوران میں بھی اجتماعیت برقرار رکھنے کےلیے مرکزی خیمہ ہوتا تھا اور اس خیمے کی تفصیلات جس طرح بائبل میں دی گئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف ہوتا تھا۔

3۔ جب بالآخر بنی اسرائیل بلاد الشام میں داخل ہوگئے، تو اگلی کئی صدیوں تک ان کے ہاں کوئی ایسی مرکزی عبادت گاہ نہیں ہوتی تھی جسے قبلے کی حیثیت حاصل ہو، تاآنکہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان اور بے مثال اقتدار بخشا، تو آپ نے فلسطین میں بڑی عبادت گاہ بنائی جسے ہیکل یا مَقدِس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (ہیکل سے اس کے grandeur اور مَقدِس سے اس کی sanctity کا اظہار ہوتا ہے۔ اردو ترجمے میں کیتھولک بائبل میں ہیکل اور پروٹسٹنٹ بائبل میں مَقدِ س کے لفظ کو ترجیح دی گئی ہے۔)بائبل میں موجود تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرکزی عبادت گاہ کی تعمیر کے وقت بھی اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ اس کا رخ کعبے کی طرف ہو۔

4۔ انبیاے بنی اسرائیل کے کئی صحف میں، یہاں تک کہ حضرت داود علیہ السلام کی زبور میں بھی مکہ مکرمہ اور حج بیت اللہ کی حسرت یا اس کی عملاً ادائیگی کا ذکر ملتا ہے۔

5۔ جب مزید تقریباً 3 صدیوں بعد چھٹی صدی قبل از مسیح میں بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کیا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل/مَقدِس کو ڈھادیا اور یہود کو غلام بنا کر بابِل لے گیا، تو یہ یہود کی تاریخ میں ایک turning point تھا۔ ہیکل/مَقدِس کی یاد اور واپس فلسطین جا کر اسے آباد کرنے کی خواہش نے اب یہودیت میں مرکزی حیثیت اختیار کرلی۔ یوں کہیں کہ اب ہیکل/مَقدِس ان کا قبلہ ہوگیا! تلمود بھی اسی دور میں لکھی جانے لگی اور “یہودیت” نامی مذہب کی تشکیل بھی اسی دور میں ہوئی۔

6۔ البتہ یہ یاد رہے کہ بہت پہلے سے بنی اسرائیل میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی رہی جو مرکزی عبادت گاہ کی تعمیر کے خلاف رہے اور اس کی تعمیر کے بعد بھی اس سے الگ تھلگ رہے۔ (سامری فرقہ اس کی ایک مثال ہے۔) بابِل جلاوطنی کے دور میں بھی یہود میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی جو ہیکل/مَقدِس اور فلسطین کے ساتھ جذباتی وابستگی نہیں رکھتے تھے اور اپنی نئی حالت پر راضی تھے، یا نئے امکانات اور نئی دنیاؤں کی تلاش میں تھے۔ ایسے لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل گئے۔ لیکن بہرحال یہود میں اکثریت کا تعلق ہیکل/مَقدِس اور فلسطین کے ساتھ جڑا رہا۔ تقریباً سو سال بعد جب انھیں واپس فلسطین میں آباد ہونے کا موقع ملا، تو ان کی بڑی تعداد واپس ہجرت پر آمادہ ہوگئی اور بڑی مشکلات کے بعد بالآخر وہاں سکونت اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر ہیکل/مَقدِس کی تعمیر بھی کی گئی اور اب یہی ان کا مرکز قرار پایا۔

7۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو یہ اسی دوسرے ہیکل/مَقدِس کا دور تھا اور آپ کے متعلق انجیلوں میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ آپ نے ہیکل/مَقدِس کی تباہی کی پیش گوئی بھی کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ان سے لے کر ایک اور قوم کے سپرد کی جائے گی جب آخری نبی آئیں گے۔ آپ نے ان آخری نبی کا نام “احمد” بھی بتادیا تھا اور ان کو “کونے کا پتھر” قرار دیا تھا، وہ پتھر جس کے بغیر عمارت ادھوری رہتی ہے اور جب وہ لگایا جائے تو عمارت پوری ہوجاتی ہے۔ (یہ “ختمِ نبوت” کی کتنی پیاری تمثیل ہے! یہیں سے انگریزی میں cornerstone کی ترکیب پیدا ہوئی ہے۔) حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آخری دنوں میں ہیکل/مَقدِس میں جا کر وہاں جاری بے ہودگیوں سے ہیکل/مَقدِس کو صاف کرنے کی کوشش کی اور یہود کے احبار و رؤسا سے کہا کہ تم نے خدا کے گھر کو ناپاک کردیا ہے۔رومیوں نے 70ء میں دوبارہ ہیکل/مَقدِس کو ڈھادیا، البتہ اس کی ایک دیوار کا کچھ حصہ باقی رہا، جسےیہود دیوارِ گریہ کہتے ہیں۔ یہی دیوارِ گریہ بعد کے یہود کےلیے قبلے کی حیثیت اختیار کرگیا اور ابھی تک اسے یہ حیثیت حاصل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا مغالطہ:

مسجدِ اقصیٰ تو یہود کا قبلہ ہے، مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب یہ بتایا جائے کہ بیت المَقدِس یہود کا قبلہ رہا ہے، تو مغالطے پھیلانے والے اس کے بعد پلٹ کر، بلکہ پینترا بدل کر، سوال کرتے ہیں کہ یہ تو یہود کا قبلہ اور مرکز ہے، مسلمانوں کا اس سے کیا لینا دینا؟

اس مغالطے کا جواب تو بہت سیدھا سادہ ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو کہا ہے کہ اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ، سے کہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت ان کی نسل میں آنے والوں سے زیادہ ان لوگوں کو حاصل ہے جنھوں نے ان کی اتباع کی، یعنی یہ نبی ﷺ اور ان پر ایمان لانے والے!

ان اولیٰ الناس بابراھیم للذین اتبعوہ، و ھذا النبیّ والذین آمنوا۔ (آل عمران، آیت 68)

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہودِ مدینہ کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، تو فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہماری نسبت ان سے زیادہ گہری ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا کہا اور پھر یہود سے الگ حیثیت برقرار رکھنے کےلیے اس سے آگے پیچھے روزے کو بہترقرار دیا۔ اسی نسبت سے مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کئی مہینوں تک بیت المَقدِس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ دل میں کعبے کی سمت نماز پڑھنے کی خواہش تھی اور معلوم بھی تھا کہ ملتِ ابراہیمی کی تجدید کےلیے ایک اہم حکم، یعنی کعبے کی بحیثیت قبلے بحالی کے حکم، کےلیے کسی بھی وقت وحی آسکتی ہے۔ چنانچہ بار بار آسمان کی طرف بھی دیکھتے تھے، یہاں تک کہ خوش خبری آن پہنچی:

قد نری تقلّب وجھک فی السمآء، فلنولّینّک قبلۃً ترضٰھا، فولِّ وجھَک شطر المسجد الحرام، وحیث ماکنتم فولّوا وجوھکم شطرہ، وان الذین اوتوا الکتٰب لیعلمون انہ الحق من ربھم، وما اللہ بغافلٍ عما یعملون۔ (البقرۃ، آیت144)

اس پر توجہ کیجیے کہ اس سے ماقبل آیت میں کہا گیا ہے کہ اس وقت تک بیت المَقدِس مسلمانوں کا قبلہ تھا:

سیقول السفھآء من الناس ما ولّٰھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا۔ (البقرۃ، آیت 143)

اس لیے جو لوگ اگلی آیت میں وما انت بتابعٍ قبلتھم دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے تو اسے اہلِ کتاب کا قبلہ کہا ہے ، نہ کہ مسلمانوں کا، وہ ادھوری بات بتارہے ہیں۔پوری سچائی یہ ہے کہ کئی صدیوں سے کعبے سے تعلق ٹوٹ جانے کے بعد اہلِ کتاب نے بیت المَقدِس کو قبلہ بنالیا تھا، لیکن یہ بیت المَقدِس کچھ عرصہ تک مسلمانوں کا بھی قبلہ رہا، جب تک مسلمانوں کو کعبے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے کا حکم نہیں دیا گیا۔

اس موڑ پر آکر پھر یہ مغالطے پھیلانے والے ایک اور پینترا بدل کر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ قبلہ تو منسوخ ہوچکا، تو اب مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق؟ ان سے جوابی سوال کریں کہ قرآن کریم نے ابتدائی دور میں کئی احکام دیے، جو بعد میں تبدیل یا منسوخ ہوئے، توکیا آپ یہ کہیں گے کہ ان احکام یا ان آیات سے ہمارا کیا تعلق؟ پھر انھیں اوپر والی بات یاد دلائیں کہ بیت المَقدِس میں بہت سارے انبیاء نے عبادت کی ہے اور وہ انبیاء ہمارے انبیاء ہیں، بنی اسرائیل سے زیادہ ان پر ہمارا حق ہے۔ مزید ان کو یاد دلائیں کہ رسول اللہ ﷺ کا اسراء اور معراج کے سفر میں اس مقدّس مقام کی کیا حیثیت ہے؟ پھر صحابۂ کرام اور بعد کے مسلمانوں نے اس کے ساتھ کیسا تعلق جوڑا اور 14 صدیوں تک مسلسل برقرار رکھا، یہاں تک کہ جب درمیان میں صلیبیوں نے اس پر قبضہ کیا تو مسلمانوں نے اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور اس وقت تک مزاحمت اور جہاد کا سلسلہ جاری رکھا جب تک اسے واپس چھڑا نہ لیا۔

آخری بات یہ یاد دلائیے کہ صلاح الدین ایوبی کے بعد سے پچھلی صدی میں انگریزوں کے قبضے تک یہ پوری سرزمین مسلسل مسلمانوں کے پاس رہی اور خصوصاً بیت المَقدِس پر مسلمانوں کا کنٹرول رہا، بلکہ انگریزی قبضے اور ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد بھی مسلمانوں نے بیت المَقدِس کو ان کےلیے نہیں چھوڑا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انھیں یہ حقیقت یاد دلائیے کہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے بہت سارے علاقے ناجائز قبضے میں لے لیے لیکن مسلمانوں نے بیت المَقدِس پھر بھی نہیں چھوڑا اور آج بھی اس کا انتظام اردن کی وزارتِ اوقاف کے ماتحت ہے۔

یہ تاریخی حقائق ان کو یاد دلا کر انھیں بتائیے کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ قبلہ منسوخ ہوا تو مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق؟ مسلمانوں کا تعلق تو اس کے ساتھ چودہ صدیوں سے مسلسل بلاانقطاع جاری رہا ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو 2 ہزار سال قبل اس سرزمین سے رومیوں نے نکالا تھا اور اس کے بعد ان کا اس سرزمین پر کبھی تسلط نہں رہا، وہ ان لوگوں کے حق کی نفی کیسے کرسکتے ہیں جن کا اس سرزمین کے ساتھ بلا انقطاع تعلق چودہ صدیوں سے جاری ہے اور جنھوں نے اس عبادت گاہ کی حفاظت مسلسل جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دے کر کی ہے!

جب اس مغالطے کی حقیقت واضح ہوجائے، تو پھر ایک اور زاویے سے حملہ کیا جاتا ہے۔ اب اس موڑ پر یہ نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ سرزمین تو اللہ تعالیٰ نے یہود کےلیے لکھ لی ہے اور ان کو میراث میں دے دی ہے، اور اس وجہ سے مسلمانوں کو چاہیے کہ یہود کو ان کا حق دے دیں۔ اس راے کا بے بنیاد ہونا تو بالکل ہی واضح ہے لیکن تھوڑی سی تفصیل ہم اگلی قسط میں دیں گے، ان شاء اللہ۔