مولانا مودودیؒ نے خلافت و ملوکیت میں خلفائے راشدین اور بعد کے ادوار میں بیت المال کے حوالے سے لکھا ہے کہ بادشاہی اور خلافت کے درمیان بنیادی فرق یہ تھا کہ بادشاہ قومی خزانے کو اپنی ملک بناکر ان میں اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ تصرف کرتا تھا اور خلیفہ اسے خدا اور خلق کی امانت سمجھ کر ایک ایک پائی حق کے مطابق وصول اور حق ہی کے مطابق خرچ کرتا ہے۔
“معاویہؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ مال غنیمت کے تقسیم کے معاملے میں حضرت معاویہؓ نے کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی، کتاب اللّٰہ و سنت رسول کی رو سے پورے مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل ہونا چاہیے اور باقی چار حصے اس فوج میں تقسیم کیا جانا چاہئے جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ لیکن حضرت معاویہؓ نے حکم دیا کہ مال غنیمت میں سے سونا چاندی ان کے لئے الگ نکال لیا جائے اور پھر باقی مال شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جائے۔”
اس عبارت کیلئے مولانا مودودیؒ نے پانچ حوالے تاریخ کے معتبر ترین کتابوں سے نقل کئے جن میں طبری، ابن الاثیر الجزری،الاستیعاب ،طبقات ابن سعد اور ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ۔
اب تقی عثمانی صاحب نے باقی چار حوالوں کو چھوڑ کر ابن کثیر کا حوالہ اٹھاکر مولانا مودودیؒ پر اعترض کیا ہے اور اس پر اپنے کتاب میں پورا باب باندھ لیا کہ مودودیؒ نے حضرت معاویہؓ پر خیانت کا الزام لگایا ہے اور کہا کہ ابن کثیر کے الفاظ یہ ہے کہ معاویہؓ نے اپنے لئے نہیں بلکہ بیت المال کیلئے سونا چاندی الگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ بالفرض اگر ہم باقی چار حوالوں کو چھوڑ کر جس میں یہ صریح الفاظ زکر ہے کہ معاویہؓ نے سونا چاندی اپنے لئے الگ کرنے کا حکم دیا تھا صرف ابن کثیر کے حوالے کو لے لیں تو پھر بھی یہ حکم صریح کتاب اللّٰہ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے کل مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا ہے اور عہد نبوی سے لیکر خلفائے راشدین کے دور تک اس پر مسلسل عمل ہوتا آرہا ہے۔
خیر تقی صاحب کے بے جا قیاسات اور کمزور اعتراضات کا تسلی بخش جوابات ملک غلام علیؒ صاحب نے دئے ہیں وہ ان کے کتاب “خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ”میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں پر میں تمام دیوبندیوں اور خصوصاً تقی عثمانی صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت معاویہؓ کے بارے میں یہی باتیں دوسرے علمائے کرام اور خصوصاً مشہور دیوبندی عالم دین مولانا یوسف کاندھلویؒ نے اپنے مشہور کتاب “حیاة صحابہؓ” میں لکھی ہے کہ
“زیاد نے حضرت حکم بن عمرو غفاریؓ کو لشکر کا امیر بناکر خراسان بھیجا ان کو وہاں بہت سا مال غنیمت ملا زیاد نے ان کو یہ خط لکھا:
اما بعد امیر المومنین حضرت معاویہؓ نے مجھے یہ لکھا ہے کہ مال غنیمت میں سے سارا سونا چاندی ان کے لئے الگ کرلیا جائے لہذا آپ سونا چاندی مسلمانوں میں تقسیم نہ کرے۔”
حضرت حکم نے زیاد کو جواب میں یہ خط لکھا:
“اما بعد تم نے مجھے یہ خط لکھا ہے جس میں تم نے امیر المومنین کے خط کا تذکرہ کیا ہے لیکن مجھے اللّٰہ کی کتاب امیر المومنین کے خط سے پہلے مل چکی ہے اور امیر المومنین کے خط اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ اس لئے میں اسے نہیں مان سکتا اور میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر سارے آسمان اور زمین کسی بندے پر بند ہو جائیں اور وہ آدمی اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے ان کے درمیان سے نکلنے کا راستہ ضرور بنادیں گے والسلام۔”
نیچے اس واقعے کی تصویر موجود ہے۔
آپ لوگ اگر واقعی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے محبت کے دعویدار ہے اور دفاع صحابہ کا علم لئے پھرتے ہیں تو جن باتوں پر مولانا مودودیؒ کو گستاخ صحابہ اور رافضی اور پتہ نہیں کون کون سے فتوے لگائے گئے ہیں تو انہی باتوں پر دوسرے علمائے کرام پر بھی یہی فتوے لگیں گے یا اپنے ہم مسلک ہونے کی وجہ سے فتوے میں رد وبدل اور تغیر اجاتا ہے؟ اور چونکہ مولانا مودودیؒ دیوبندی نہیں ہے اسلئے وہ مجرم ہے اور باقی نہیں۔
خدارا یہ دو ترازو پر تولنا بند کریں ایک دن اس کا حساب بھی دینا ہوتا ہے اور اپنے اندھے مقلدین کو مزید گمراہی سے نکال دیں یا تو اپنے ہم مسلک پر بھی یہی فتوے لگادیں یا مولانا مودودیؒ کے خلاف لکھے ہوئے تمام باتوں سے رجوع کریں شکریہ
افتخار احمد



