مغالطہ

مغالطہ : “قیام پاکستان سے مسلمانانِ برصغیر تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ متحدہ ہندوستان میں ان کی طاقت متحد ہوتی تو کوئی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔“

حقیقیت : اس وقت ہندوستان میں مسلمان وہاں کی کل آبادی کا 14 فیصد ہیں۔ ایک ارب چالیس کروڑ میں سے بیس کروڑ ہندوستانی مسلمان ہیں جبکہ ہندو ایک ارب دس کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ اگر تقسیم نہ ہوتی تو متحدہ ہندوستان میں مسلمان کل آبادی کا 31 فیصد ہوتے۔ متحدہ ہند کی آبادی ایک ارب اسی کروڑ ہوتی جس میں مسلمانوں کی تعداد پچپن کروڑ کے لگ بھگ ہوتی جبکہ ہندو تقریباً ایک ارب بارہ کروڑ ہوتے گویا مسلمانوں کی مجموعی آبادی کے دو گنا سے زیادہ۔

جمہوریت میں پچاس عشاریہ ایک فیصد اکثریت کی بھی حکومت ہوتی ہے اور انچاس عشاریہ نو فیصد اقلیت کو بھی اپوزیشن میں بغیر کسی شراکت اقتدار کے رہنا پڑتا ہے۔ اور اقتدار میں شرکت نہ ہو تو پچپن کروڑ لوگ بھی صفر ہی ہوتے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہندوں کی کثیر اکثریت ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ پہلے کانگرس اور اب بی جے پی، ہندو ووٹ تقسیم بہت کم ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ موجودہ ہندوستان کے علاقوں میں مسلمان بیس کروڑ ہونے کے باوجود بہت کم مقامات پر اکثریت میں ہیں اور جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں کے مسلمان کل آبادی میں ڈیڑھ کروڑ بھی نہیں ہیں۔ (اس میں بھی نصف وادی کشمیر کے ہیں جو سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہیں)۔

برصغیر میں حلقوں کا طریقہ انتخاب رائج ہے جس کے سبب چودہ فیصد ہندوستانی مسلمانوں کو کبھی بھارتی پارلیمنٹ میں پانچ فیصد سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں۔

گویا اکتیس فیصد ہوتے ہوئے بھی مسلمان متحدہ ہند کی پارلیمنٹ میں آبادی کے تناسب سے بھی کم ہی ہوتے اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں سے ہی مسلم نمائندے آبادی کے تناسب کے لحاظ سے منتخب ہوتے، موجودہ بھارتی علاقوں کے مسلمان نمائندگی سے محروم ہی رہتے۔

مزید یہ کہ وفاقی ملک میں اصل قوت کا سرچشمہ وفاقی حکومت ہی ہوتی ہے۔ صوبائی حکومتیں جتنی بھی خودمختاری حاصل کرلیں، وفاقی حکومت کبھی بھی گورنر راج لگا سکتی ہے یا آئین میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اس کی مثال ہم نے حال ہی میں کشمیر کے معاملے میں دیکھی جس کی خودمختاری تو خودمختاری، ریاستی حیثئیت تک کو بالکل یکطرفہ طور پر، کشمیریوں کی کسی قسم کی منظوری یا مشاورت کے بغیر بھارت کی مرکزی حکومت نے منسوخ کردیا۔ اس بات کو ماننے کی کوئی وجہ نہیں کہ بنگال، پنجاب، سرحد یا سندھ کے ساتھ نئی دلی کی طرف سے بالکل یہی سب نہ ہوتا۔

احمد الیاس