مولانا منظور نعمانی ہندوستان کے ایک بڑے عالم، الفرقان لکھنؤ کے مدیر اور معارف الحدیث سمیت متعدد علمی کتابوں کے مؤلف تھے. ان کے والد گرامی خوش عقیدہ بزرگ اور پیر تھے. بہت باقاعدگی سے ہندوستان میں ہونے والے عرسوں میں شریک ہوتے. بیٹے کو دینی تعلیم دلانا چاہتے تھے، اور اپنے ہم مسلک علما کا کوئی قابل ذکر ادارہ نہیں تھا. اس لیے دیوبند بھیج دیا اور یہ سوچا کہ فارغ ہو کر واپس اپنے مسلک پر آ جائے گا. مولانا منظور نعمانی لکھتے ہیں کہ ایک دن میرے والد دوران سفر مجھے ملنے کے لیے دیوبند اترے اور رات میرے پاس ٹھہرے. اس زمانے میں مولانا ادریس کاندھلوی فجر کی نماز کے بعد دیوبند کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے. میں رات کو مولانا کاندھلوی سے ملا اور انہیں اپنے والد کی آمد اور ان کے مسلک سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ فجر کے درس میں آپ ان کا خیال رکھیں
مولانا کاندھلوی نے اس دن کرامات الاولیاء حق کے عنوان پر درس دیا
اس کے بعد مولانا منظور نعمانی کے والد کہتے کہ میں جانے بغیر دیوبند والوں سے بدظن تھا کہ
یہ اولیاء اللہ کے منکر ہیں.
مولانا نعمانی شاید ردعمل میں بعد میں اس حد تک چلے گئے کہ بریلوی علما سے مناظرے کیا کرتے تھے.
میں نے اپنی طالب علمی کے ابتدائی دور میں ان کے مطبوعہ مناظرے بڑے شوق سے پڑھے تھے.
لیکن
بعد میں مجھے مولانا عبدالحفيظ مکی نے بتایا کہ مولانا منظور نعمانی نے بریلوی علما سے مناظرے کرنے سے توبہ کر لی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ
بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے بریلوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت و تقدس کا دفاع کر رہے ہیں اور ہم دوسری جانب کھڑے ہیں.
بعد میں مولانا منظور نعمانی نے انقلاب ایران پر ایک کتاب لکھی جس کی پاکستان میں بڑے پیمانے پر اشاعت کی گئی
مولانا کے آخر عمر کے نظریات کے اثرات تھے کہ ان کے صاحبزادے غالی ناصبی ہو گئے اور مولانا نعمانی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی جو گہرے دوست تھے نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے اتنے دور ہو گئے کہ بول چال کا تعلق بھی نہ رہا.
اس سارے واقعے میں یہ عرض کرنا تھا کہ
عید میلاد النبی کی مخالفت میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ پڑھنے سننے والوں کو رسول دشمنی کی بدبو آنے لگے.
طفیل ہاشمی