میری نانی سنی تھیں، مگر اہل بیتؑ کے در کی فقیر تھیں، ان کا آلِ رسولؐ سے اتنا لگاو تھا کہ محلہ دار خواتین کی کوئی حاجت ہوتی تو میری نانی کے پاس آتیں اور بی بی فاطمہؑ کا معجزہ سنانے کی منت ماننے کو کہتی تھیں، میری نانی یوں کہتی” دھی رسول اللہ ص دی ، زوجہ علی المرتضیٰؑ دی، والدہ حسن تے حسین ع دی، اے مائی سین پاک میں دو پیسے دے تِل تے شکر دیساں خدا نوں میری سفارش تاں کرو چا۔ اللہ کو جنابِ سیدہؑ فاطمہؑ کا واسطہ اتنا عزیز تھا کہ وہ میری نانی کو کبھی خالی واپس نہ موڑتا، محرم میں دھوپ پہ نماز پڑھتی تھیں کوئی پوچھتا کہ اتنی گرمی میں کیوں نماز پڑھتی ہیں تو جواب دیتیں امام حسین کے ساتھ اگر کربلا میں ہوتی تو ضرور ان کے پیچھے دھوپ پہ نماز پڑھتی، جب حسینؑ دھوپ پہ نماز پڑھے تو میں چھاوں پہ کیسے جاوں، اپنی اولاد کو کبھی عصر کے وقت پانی نہ پینے دیتیں کیوں کہ عصر وقتِ شہادت ہے حسین مولا کا،انتہائی غربت تھی اس لئے پراندے بنا کر بازار میں فروخت کرتی تھیں سارا سال تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتیں اور شبِ عاشور میٹھی روٹی پکا کر تقسیم کرتی تھیں، ان کی محبت اور مودت دیکھ کر میں آج بھی رشک کرتا ہوں وہ بغیر کسی لالچ کے غیر ماتمی عظیم شیعہ تھیں، جب فوت ہوئیں تو اہل سنت کے ساتھ ساتھ اہل تشیع نے بھی جنازے میں شرکت کی۔
میرے دل کو جب پروردگار نے اہل بیتؑ کے نور سے روشن کیا تو اس سے پہلے میں ایک محب اہل بیتؑ ماں اور نانی کے باوجود اہل بیتؑ سے ویسی محبت نہ رکھ سکا جیسی میری ماں اور نانی رکھتی تھیں، شائد ماحول کا اثر تھا کہ میں کبھی بھی اہل بیتؑ کا طرف دار نہ تھا، جیسے ہی آلِ رسولؑ نے مجھ پہ ترس کھایا اور اپنا غلام نامزد کیا تو مجھے اپنے خاندان اور معاشرے میں بہت نفرت کا سامنا کرنا پڑا، میرے نانا سخت قسم کے غیر شیعہ تھے، پھر اردگرد کا ماحول اس قسم کا تھا کہ وہاں تشیع سے شدید نفرت کی جاتی تھی، جب میں نے فقہ جعفریہ اختیار کیا تو دن میں کئی گروہ آتے جو مجھے تبلیغ کرتے ، کوئی شیعوں کی کتب اٹھا کر دکھاتا، کوئی غیر ذمہ دار ذاکرین کی سی ڈیز دے جاتا، میرے نانا نے مجھ سے قطع کلامی کرلی اور اپنی جماعت کے چند لوگوں کو میرے قریب کیا تاکہ وہ مجھے یہ یقین دلا سکیں کہ میں کافر ہوچکا ہوں، اور جو مسلک میں نے چُنا ہے وہ دنیا کا بدترین کفر پہ قائم ہے، مجھے وہ تمام باتیں بتائی جاتیں جو آج غلط ثابت ہوچکی ہیں، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی وہی روایتی الزامات لگاتے تھے، چونکہ میں نورِ آلِ نبیؑ آنکھوں سے دیکھ چُکا تھا تو میں اپنے عقیدے سے ایک انچ بھی نہ پیچھے ہٹا۔
آج مجھے شیعہ ہوئے تیرہ سال ہوچکے ہیں آج جب میں آلِ رسولؐ کے ساتھ باقی مسلمانوں کا رویہ دیکھتا ہوں تو خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہوں جس نے مجھے ان کے طرف داروں میں شامل کیا جن کا طرف دار وہ خود ہے، آج تیرہ سال بعد وہ تمام تر الزامات مٹی میں مل گئے، نہ میں نے شامِ غریباں میں شیعوں کو غلط کاری کرتے دیکھا، نہ چالیس پاروں والا قرآن آج تک مجھے کسی شیعہ مسجد میں نظر آیا، اور نہ میں نے تُھوک ملی نیاز کھائی۔ البتہ یہ ہوا کہ وہ جو اس وقت عاشقِ رسولؐ تھے اور مجھے کافر کہتے تھے وہ محرم میں بچوں کی شادیاں بھی کر رہے ہیں اور حسینؑ کی جنگ کو اقتدار کی لڑائی کہہ رہے ہیں، وہ گلی میں ساری رات رقاصاوں کے رقص تو برداشت کرلیتے ہیں مگر ذکرِ حسینؑ کرنے پہ پرچہ درج کروا دیتے ہیں، لیکن میں آج جلوس اور مجالس میں ان لوگوں کو بھی بیٹھ کر روتے دیکھتا ہوں جو کسی وقت میں شدید قسم کے شدت پسند تھے مگر آج غلامانِ اہل بیتؑ میں شامل ہوچکے ہیں، کسی کو اولاد اس در سے ملی تو کسی کو رزق کی فراونی اللہ نے عطاء کردی، کوئی لاعلاج مرض سے شفاء یاب ہوا تو کوئی پھانسی کے پھندے سے اسی گھرانے کے صدقے واپس آیا۔
آلِ محمدؐ کی محبت اتنی غیر اہم نہیں کہ ہر قلب پہ نازل ہوجائے اس کے لئے خدا کے خاص کرم کی ضرورت ہوتی ہے اور رب سوہنڑے کا کرم ہر ایک پہ نہیں ہوتا۔
علی اصغر