ناصبیت اور رد ناصبیت – قتل عثمان اور قصاص

مولانا عمار خان ناصر جدیدیت میں جاوید غامدی کی فکر سے متاثر ہیں اور اوائل اسلام کے تاریخی واقعات بارے ان کی تعبیر میں تقی عثمانی، محمود عباسی اور جاوید غامدی کے افکار کا رنگ نظر آتا ہے ۔ ان کے مقابل مولانا مفتی محمد زاہد، ملوکیت اور ناصبیت کے خلاف متقدمین اہلسنت کے افکار کے حامل ہیں ۔ ان کا ایک حالیہ مکالمہ درج ذیل ہے

—-

رد ناصبیت کے جوش میں حضرت عثمان کے قصاص کے مطالبے کو “غیر شرعی” ثابت کرنے کے لیے جو ایک نئی فقہ وجود میں لائی جا رہی ہے، اس کے کچھ نمونے تو ہم نے مولانا نعمانی مرحوم کے ہاں دیکھے۔ اسی کار خیر کو آگے بڑھاتے ہوئے اب کچھ تحریروں میں یہ استدلال پیش کیا جا رہا ہے کہ فقہ میں اہل البغی کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان کی رو سے باغی گروہ نے تاویل کی بنا پر جو قتل وغارت کی ہو، ہتھیار ڈالنے یا جنگ میں شکست کھا جانے کے بعد اس سے اس کا قصاص نہیں لیا جا سکتا۔

یہاں بھی وہی اعلی سطحی فقہی بصیرت کام کر رہی ہے۔ قاتلین عثمان اور ان کے پیچھے پورا باغی گروہ ان معنوں میں اہل البغی نہیں تھے جیسے خوارج اور اہل شام کو کہا جاتا ہے۔ یہ محاربین اور مفسدین کا ایک جتھہ تھا جو سورہ مائدہ کی آیت محاربہ کے تحت معاملے کا مستحق تھا۔ انھوں نے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے خون نہیں بہایا تھا، دار الحکومت پر حملہ کر کے خلیفہ کے گھر میں گھس کر ان کو شہید کیا تھا۔ اور انھوں نے نہ توبہ کی تھی، نہ ہتھیار ڈالے تھے اور نہ انھیں جنگ میں شکست دے کر مطیع بنایا گیا تھا۔ جمہور اہل سنت کو چونکہ رد ناصبیت کا ہیضہ نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ سیدنا علی کے، قصاص نہ لینے کی ایک حقیقت پسندانہ اور مبنی بر واقعہ توجیہ کرتے ہیں کہ صورت حال ان کے اس طرح کنٹرول میں نہیں تھی کہ وہ باغیوں سے قصاص لے سکتے۔ نہ صرف یہ کہ قصاص نہیں لے سکتے تھے، بلکہ خود اپنی خلافت کر برقرار رکھنے کے لیے معروضی حالات میں باغیوں کی فوجی طاقت پر انحصار کرنا ان کی مجبوری تھی، اس لیے انھیں اس پر دوش نہیں دیا جا سکتا۔

پھر چونکہ جمہور اہل سنت کے نزدیک رد ناصبیت کا وہ مفہوم بھی نہیں تھا جو اب بنایا جا رہا ہے، اس لیے وہ جمل وصفین میں حضرت علی کے مخالفین کے موقف کو فقہی تجزیے کی رو سے نادرست قرار دیتے ہوئے بھی انھیں اسی طرح پیچیدہ صورت حال کا مارجن دیتے ہیں جیسے حضرت علی کو دیتے ہیں۔ یہی انصاف اور یہی اعتدال ہے۔ حضرت علی کی ہر بات کو سو فیصد صحیح اور مخالفین کی ہر بات کو سو فیصد غلط کہنا ہرگز رد ناصبیت نہیں، یہ ناصبیت ہی کی ایک معکوس شکل ہے۔

عمار خان ناصر

—-

ایک فقیہانہ توجیہہ یہ کی جاتی ہے کہ حاکم وقت کو اختیار ہوتا ہے کہ باغی کو معاف کردے جیسے پاکستانی ریاست نے تحریک طالبان کے ساتھ معاھدہ کرلیا، گویا ان حضرات کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ حضرت علی نے باغیوں کو حکمران کے اختیارات کے تحت معاف کردیا تھا۔ اس توجیہہ کو اگر واقعی سنجیدگی سے قبول کرلیا جائے تو پھر حضرت علی کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے نہ کہ مضبوط

زاہد مغل

—-

ان کے خلاف کارروائی جس طرح کا فریضہ قرار دیا جا رہا ہے اس کے مطابق پہلا الزام حضرت عثمان پر آتا ہے کہ انھوں نے قرآنی حکم کے اجرا میں کوتاہی کی

محمد زاہد

—-

حضرت عثمان کس جرم پر سزا دیتے انہیں؟ اس جرم پر کہ خلیفہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے؟

زاہد مغل

—-

مولانا عمار صاحب کے مطابق وہ آیت محاربہ کے تحت داخل تھے

یہی تو فرق اہم ہے کہ قاتلین میں اور احتجاج کرنے والوں میں فرق کیا جائے.

محمد زاہد

میرے خیال میں انہیں آیت محاربہ کے تحت لانے کا استدلال حضرت عثمان کو شہید کردئیے جانے کے بعد کی صورت حال پر ھے نہ کہ ابتدائی۔ یہ اندازہ لگانا تو مشکل تھا کہ یہ لوگ اس حد تک چلے جائیں گے!

زاہد مغل

—-

قتل کرنے والے تو چند افراد تھے، احتجاج کرنے والوں میں قتل کرنے کے مخالف موجود تھے

محمد زاہد

—-

اور حضرت امیر معاویہ رض کے گروہ کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ قاتلین سے قصاص لیا جائے نہ کہ سارے مجمع سے۔ اس بات میں اصولا کیا غلط بات تھی؟ اس مطالبے کو بعد میں ہونے والی جنگوں کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جانا چاھئے، اصولا و شرعا اس بات میں کیا غلطی تھی؟ جس قسم کی فقیہانہ توجہیات حضرت عثمان کے قصاص کے مطالبے کو غلط قرار دینے کے لئے عمار صاحب نے ذکر کی ہیں یہ تو الٹا حضرت علی کی پوزیشن کو کمزور کرنے والی بات ہے

زاہد مغل

—-

آیتِ محاربہ کے تحت “قصاص” کی فقہ پہلی مرتبہ سنی ہے

محمد زاہد

—-

اس کا جواب عمار صاحب دیں گے، میں نے یہ نہیں کہا

زاہد مغل

—-

یہ مشاھدہ تو ھم آج بھی عام طور پر کرتے ہیں کہ ایک طاقتور گروہ یا شخص اگر کسی کو قتل کردے تو این جی اوز یا دیگر لوگ مل کر حکمران سے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں اور کوئی یہ فقیہانہ اعتراض نہیں کرتا کہ قصاص لینا تو صرف گھر والوں کا حق ہے، یہ لوگ کہاں سے آگئے ہیں بیچ میں۔

زاہد مغل

—-

میرا سوال بھی عمار صاحب ہی کے نکتے پر ہے آپ سے نہیں، ہم نے ہر جگہ یہی پڑھا مسئلہ قصاصِ عثمان کا تھا، فساد فی الارض والوں سے تو قصاص نہیں لیا جاتا. مولانا عبد الرشید نعمانی نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک مباشرینِ قتل ان پر قصاص ہے بشرطیکہ شرعی تقاضے پورے ہو جائیں اور دوسرے جتھا بنا کر خلیفہ کی عمل داری ختم کرنے والے، ان پر مولانا نعمانی نے باغیوں کے احکام جاری کیے ہیں جبکہ عمار صاحب نے انھیں فساد فی الارض کے مرتکب قرار دیا ہے. میرے علم میں نہیں کہ کبھی اس دور کی بحث اس آیت کا بھی حوالہ آیا ہو

محمد زاہد

—-

مطالبہ ہر ایک کا حق ہے مگر قاضی کے سامنے قصاص کا دعویٰ بہر حال وارثوں کو ہی کرنا پڑتا ہے

محمد زاہد

—-

یہ بات بھی مد نظر رھنا چاھئے کہ کوئی عام شھری قتل نہیں ہوا تھا، اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ کوئی قصاص کے لئے پیش نہیں ہوا تب بھی حکمران فساد فی الارض کے تحت اس جرم کی سزا کا فیصلہ کرسکتا ہے اور خلیفہ عادل کے قتل ناحق کے بعد ایسا ہی ہونا چاھیے۔ اس کے مظاھرے ھم آج بھی دیکھتے ہیں

زاہد مغل

—-

حضرت مفتی محمد زاہد صاحب، دو معروضات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آیت محاربہ کا حوالہ دیا جانا تو بنیادی امر نہیں، بنیادی امر یہ ہے کہ باغی جس طرح مدینہ میں آئے تھے اور حضرت عثمان کو گھر میں محصور کر کے ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے، اس کی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ پرامن احتجاج تھا؟ اگر نہیں تو حرابہ اور فساد فی الارض کے تحت کیوں نہیں آتا؟ قتل عثمان سے پہلے بھی اس گروہ کی شرعی حیثیت یہی بنتی تھی اور بعد میں تو یہ حیثیت اظہر من الشمس تھی۔

دوسری یہ کہ ’’قصاص’’ ایک جامع عنوان تھا باغیوں کے خلاف مطلوب شرعی کارروائی کا۔ یہ مطالبہ نہیں تھا اور نہ بنتا تھا کہ پورے جتھے کو قتل کے الزام میں قتل کر دیا جائے۔ لیکن کیا براہ راست قتل کا ذمہ دار نہ ہونے کے باوجود، باغی گروہ قتل کی فضا قائم کرنے، قاتلوں کی سہولت کاری کرنے، قتل کے بعد اس پر رضامندی ظاہر کرنے، سیدنا عثمان کو دفن تک نہ کرنے دینے جیسے اعمال کے ارتکاب کی وجہ سے ’’حرابہ’’ اور ’’فساد فی الارض’’ کی سزا کا مستوجب نہیں تھا؟ چلیے، قصاص کے لیے اولیاء کے مطالبے کی شرط یہاں بے محل سہی، عائد کر لی جائے، کیا باغیوں کے خلاف بھی کسی تادیبی کارروائی کے لیے یہی شرط عائد ہوتی تھی؟ اور کیا حضرت علی، قصاص نہ سہی، کوئی بھی مناسب تادیبی وتعزیری سزا دینے کے لیے تیار تھے یا اس کی پوزیشن میں تھے؟

مولانا نعمانی تو اس طرح معاملے کو ’’ڈھائی پھٹ’’ طریقے سے نمٹانا چاہ رہے ہیں کہ قتل عثمان کے بعد دو قاتلوں کے مارے جانے اور باقیوں کے فرار ہو جانے سے صورت حال وہیں ’’نارمل’’ ہو گئی تھی اور اب دراصل قتل عثمان نہیں بلکہ اس مسئلے کو اٹھانا ’’فساد فی الارض’’ تھا۔ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است۔

عمار خان ناصر

قصاص ایک جامع عنوان کیسے ہو گیا، قصاص تو قصاص ہی ہوتا ہے، آپ نے کمنٹ کے شروع میں انھیں باغی تسلیم کر لیا ہے، اگر قصاص کو نکال لیا جائے تو مجھے نہیں اندازہ کہ باغی اور محارب کے درمیان فرق کتنا ہوگا، سوال یہ ہے کہ اگر یہ محارب تھے اور ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ضروری تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس حکمِ شرعی سے انحراف کیسے کیا اور کارروائی نہ کرنے کو حضرت عثمان کے تحمل کی اعلیٰ مثال کیسے قرار دیا جائے گا، پھر ان کی بھی مجبوری ماننی پڑے گی

محمد زاہد

—-

میرے خیال میں حضرت عثمان کا موقف تو واضح طور پر تاریخ میں منقول ہے۔ ابتدا میں انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ اس حد تک چلے جائیں گے یا کہہ لیجیے انھوں نے اپنی معروف مسامحت اور نرم خوئی سے کام لیا اور مدینہ کو خونریزی سے بچانے کے لیے باغیوں کے صرف جمع ہونے پر ان کے خلاف اقدام سے گریز کیا۔ لیکن پھر آخرکار ان کے خلاف عراق وشام سے فوجیں طلب کیں جو کافی بعد ازوقت فیصلہ تھا۔ اس کو ان کی مجبوری کہا جائے یا سیاسی بے تدبیری، یہ بہرحال اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ باغی گروہ کی پوزیشن ایک پرامن جماعت کی تھی جس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا تھا۔

ان کے لیے باغی کی تعبیر، میں واضح کر چکا ہوں کہ فقہی اصطلاح کے لحاظ سے ’’اہل البغی’’ کے معنوں میں نہیں ہے۔ حضرت عثمان کے ناقدین میں کئی طرح کے عناصر تھے۔ بعض صرف شکایات کا ازالہ چاہتے تھے۔ بعض خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ رکھتے تھے۔ بعض ان مطالبات کو منوانے کے لیے خلیفہ کو عملا معطل کر دینے کی حد تک چلے گئے تھے اور بعض بدبختوں نے خلیفہ کو شہید کر دیا تھا۔ ان میں سے آخری دو عناصر کی حیثیت قطعی طور پر محاربین ومفسدین کی تھی۔ قاتلین کا پتہ چلانا متعین طور پر مشکل ہو تو ہو، کاروبار خلافت کو معطل کرنے اور قتل کے بعد اس سارے عمل کو own کرنے والے عناصر ہرگز مشتبہ یا مخفی نہیں تھے۔ سب کے سامنے تھے۔

عمار خان ناصر

—-

فہم صحابہ ،بالخصوص سیدنا عثمان و سیدنا علی، کے مطابق مذکورہ افراد، محاربہ و فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں تھے ورنہ ان حضرات کی تنفیذ شرع کے حوالے سے گرفت اور پوزیشن کمزور نظر آئی گی۔ اور تاویل بے محل۔۔

اعتراضات کرنے والے انتہائی پوزیشن اختیار کر رہے تھے ،محاصرہ طول پکڑ چکا تھا۔۔ لیکن ریاست کی طرف سے ان کو مسلم حقوق کی حد میں شمار کیا گیا۔۔

بعد شہادت عثمان قاتلین کی پوزیشن کو یک دم ، باغی، یا ان کے مطالبات کو یک قلم مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا، ابھی جو لوگ مسلم تھے حد یہ کہ کھانا پینا ،ملنا جلنا بند کیئے ہوئے تھے، جب اتنہا کو پہچے تو ،ریاستی سلوک کو یک دم تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔۔ اگر کیا جاتا تو خانہ جنگی کی بدتر صورت حال سے سامنا کرنا پڑتا۔۔ جو بعد میں قصاص کی صورت اختیار کر کے جنگوں میں تبدیل ہوا۔۔

لیکن ریاست کا سلوک جو سیدنا عثمان فرما رہے تھے سیدنا علی بھی اسی کو لے کر آگے بڑھے۔۔ اگر مجرم بنتے تو دونوں ہی بنتے،اگر ایک مجرم نہیں تو دونوں مجرم نہیں بنتے۔۔

امیر معاویہ کا خاندانی بنیاد پر علم بلند کرنا، حضرت عثمان کے خلاف علم بلند کرنے والوں سے کم نہیں ہے۔۔

شخصی و ریاستی نقصان برابر نہیں ہوتے۔

علی

—-

عمار خان ناصر صاحب، گویا آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آخر وقت میں مدد کے لیے لشکر منگوائے تھے، سوال یہ ہے کہ اہلِ مدینہ ان چند سو سے نمٹنے کے لیے کیوں کافی نہیں تھے، اگر باہر سے کمک نہیں بھی آئی تھی تو جب حضرت عثمان کو آپ کے ارشاد کے مطابق یہ احساس ہوا کہ ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو گئی ہے کہ مدینے میں دستیاب فورس کتنی استعمال کی گئی، مجھے ڈر ہے کہ بات کہیں اس طرف نہ چلی جائے کہ اکابر صحابہ جن کے کہنے پر مدینے کے لوگوں نے نکلنا تھا نعوذ باللہ وہ بھی طہ حسین والی رکھتے تھے،اس لیے دونوں خلفا کے مقام کا تقاضا یہ ہے کہ قصاص کے علاوہ کوئی متعین حد شرعی نہیں بن رہی تھی اور قصاص کے لیے قصاص کی شرائط کا پایا جانا ضروری تھا، اس کے علاوہ کوئی تعزیری حکم تو ہو سکتا ہے متعین شرعی حد کا دعویٰ کرنے سے بے شمار نئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے جو اس پوسٹ میں بیان نہیں ہوسکتے

بات لمبی ہوگئی اس لیے اصل نکتے کی تلخیص ضروری ہے، وہ یہ کہ مولانا نعمانی پر اعتراض درست نہیں ہے، اس لیے محاربہ کی حد شرعی والی آپ کی تکییف مولانا نعمانی کے زمانے تک کہیں وجود ہی نہیں رکھتی تھی تو مولانا نعمانی اس کا جواب کیسے دیتے. آپ کی تکییف کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو پہلے اس زاویے سے حضرت علی اعتراض کیا جانا کم از کم میرے علم میں نہیں ہے.

محمد زاہد