سید متین شاہ جی کے لئے سراپا سپاس ہوں کہ انہوں نے مولانا عبدالرشید نعمانی کی دوکتب ناصبیت تحقیق کے بھیس میں
اور یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں
ای میل کیں. آج کا دن اول الذکر کتاب کے مطالعہ میں گزرا. آخر میں پہنچ کر افسوس ہوتا ہے کہ کاش مولانا اسے مکمل کر سکتے تو محمود احمد ناصبی کی کتاب کا مکمل اور جامع جواب ہوتا.
ہمارے عہد میں اس موضوع پر بہت مستند اور علمی مواد آ چکا ہے
خلافت و ملوکیت اور اس کی حمایت ورد میں، نیز سید لعل حسین شاہ بخاری کی تالیفات ، مولانا محمد اسحاق فیصل آبادی کے لیکچرز اور مولانا عبدالرشید نعمانی کی تالیفات نیز
الوثائق السیاسیہ فی عہد بنی امیہ اور طہ حسین کی الفتنہ الکبری، علی و بنوہ
ان موضوعات پر اب اتنا مواد جدید ترین اسلوب میں آگیا ہے کہ اس پر علمی تحقیقی اور غیر جانبدارانہ اعلی پائے کی تالیف بلکہ تالیفات لائی جا سکتی ہیں. دور حاضر کے مذہبی فتنوں میں قادیانیت کے بعد سب سے بڑا فتنہ ناصبیت ہے جہاں تک رفض اور شیعیت کا تعلق ہے اس میں بنیادی اختلاف کلامی مباحث کا ہے جن پر مزید کسی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے
.
طفیل ہاشمی
۔۔۔
کل ہی جناب رضوان نفیس صاحب عطا فر ما کر گئے ہیں. محمود احمد عباسی کی تردید میں لکھی گئی کتاب ہے. کتاب کے اعلی معیار کے لیے تو مؤلف رح کا نام ہی کافی ہے، کتاب کے نام میں سب سے سب اہم حصہ “تحقیق کے بھیس” ہے. واقعی ان کا سب سے بڑا دھوکا یہی ہوتا ہے کہ ہم تحقیق پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف محض اندھی عقیدت ہے. مولانا نعمانی نے اسی دعوے کا پول کھولا ہے. عباسی صاحب نے جگہ جگہ آزاد اور بے لاگ مؤرخین یا محققین کی اصطلاح بہت کثرت سے استعمال کی ہے تقریباً ہر جگہ ان کی مراد مستشرقین ہیں. گویا اسلامی تاریخ یا تو اندھی عقیدت میں جکڑی ہوئی تھی یا پھر شیعوں کے زیر اثر تھی، اہلِ استشراق کے آزاد اور بے لاگ محققین نے آکر اسے بازیاب کرایا ہے. یہ تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ جدید ناصبیت استشراق ہی کی توسیع ہے مگر اس کتاب سے یہ اندازہ یقین میں تبدیل ہو گیا. کاش مولانا نعمانی یہ کام مکمل کر جاتے.
مفتی محمد زاہد