نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا مسئلہ اجتہادی ہے، اگر کوئی شخص ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز بھی درست ہے۔ مالکیہ کا مشہور مذہب ہے کہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھے جائیں گے۔ المدونة (رواية سحنون) میں یہ بات واضح ہے گرچہ مالکیہ کی ایک جماعت کے نزدیک ہاتھ باندھنا زیادہ صحیح ہے۔ اور امام مالک سے بھی ہاتھ باندھنا منقول ہے، اسے امام مالک سے ابن ماجشون اور مطرف وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
میرے نزدیک اس مسئلہ میں مالکیہ کے دلائل پر لیبیا کے مالکی عالم ، شیخ محمد عز الدين الغرياني کی کتاب « سدل اليدين في الصلاة أحكامه وأدلته » سب سے عمدہ ہے۔
(شیخ محمد عز الدین الغریانی ، لیبیا کے مفتی اعظم شیخ صادق الغریانی کے چچا زاد برادر ہیں۔ دونوں برادران سلف کے عقیدہ پر ہیں ، اشعریت سے پاک ہیں۔)
یہ اختلافی مسائل پڑھنا ہر عالم کے لیے ضروری ہے تاکہ اس سے آپ میں اعتدال پیدا ہو۔ میں یقینی تو نہیں ہوں مگر یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ میں اعتدال ضرور آئے گا۔ ہاتھ باندھنے والے سدل یا ارسال کرنے والوں پر بے جا سختی نہیں کریں گے۔ اس مسئلہ پر شیخ صادق الغریانی المالکی کا بیان بھی موجود ہے ، ان کے بقول ابن القاسم کی روایت امام مالک سے صحیح ہے کہ آپ سدل کرتے تھے لیکن سنت کی اتباع اولٰی و افضل ہے۔ نماز میں سدل نبیِ کریم ﷺ سے ثابت نہیں نہ ہی جمہور صحابہ سے ثابت ہے بلکہ یہ فقط بعض صحابہ سے ثابت ہے۔ سدل کرنے (ہاتھ چھوڑنے) والوں اور قبض کرنے (ہاتھ باندھنے) والوں کو ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ اس لیے کہ ہاتھ باندھنا فرض نہیں ہے سنت ہے۔ اس میں تشدد نہیں ہے۔ (دیکھیے: https://youtu.be/b5avgU-uzjc)
ابو رجب حنبلی