نوروز

نوروز بہار کے اس دن کو کہا جاتا ہے جب دن اور رات برابر ہوجاتے ہیں۔ ہجری شمسی کیلنڈر کی ابتداء اسی دن سے ہوتی ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو سال کا آغاز کرنے کے لیے یہی دن بہترین ہے کیونکہ بہار نئے آغاز کی علامت ہے اور نیا سال بہار کے عروج سے ہی شروع ہونا چاہیے۔ ہمار دیسی بِکرمی کیلنڈر بھی چیت کے مہینے سے شروع ہوتا ہے جو بہار میں ہی آتا ہے۔ انگریزی کیلنڈر میں شدید جھاڑے میں نیا سال شروع کرنے کی روایت بے تُکی ہے۔

ایرانی / افغان کیلنڈر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ شمسی ہجری کیلنڈر ہے۔ یعنی اس کا آغاز ہجری قمری کیلنڈر کی طرح ہجرت مدینہ سے ہوتا ہے لیکن یہ اس کے بعد چاند کے حساب سے نہیں بلکہ سورج کے لحاظ سے چلتا ہے۔ گویا اگر ہجری قمری کیلنڈر مذہبی معاملات میں ہمارا معاون ہے تو روزمرہ کی عملی ضروریات کے لحاظ مسلمانوں کا مّلی کیلنڈر ہجری شمسی کو ہی ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ روایات کے مطابق جب سرکار دو عالم اپنے یارِ غار کے ہمراہ مدینہ تشریف لائے، طلع البدر علینا کی میٹھی صدائیں بلند ہوئیں جو آج تک اُمت محمدیہ کا مّلی ترانہ ہیں، اور مواخات و عدل پر مبنی ایک ریاست کی بنیاد ڈالی گئی تو وہ بھی بہار کا پیارا موسم تھا۔

ایران اور افغانستان میں ہجری شمسی ہی سرکاری کیلنڈر ہے اور عموماً اسی کا روزمرہ معاملات میں استعمال ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ڈی کولونائزیشن کے جذبے تحت عالمِ اسلام کے تمام ممالک کو مغربی سامراج کا مسلط کردہ بے تُکا عیسوی کیلنڈر چھوڑ کر ہجری شمسی کیلنڈر اختیار کرلینا چاہیے۔ اس کا تعلق جہاں ہماری تہذیب کی پیدائش اور اسلامی تہذیب سے ہے وہیں یہ بہار کے جشن کی مشرقی روایت سے جڑا ہے اور جانِ رحمت کا مدینہ تشریف لانا اور اسلامی تہذیب کی پیدائش بھی تو انسانی تاریخ میں آنے والی بہار ہی تھی۔

ہجری شمسی کیلنڈر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تیس اور اکتیس دن کے مہینے ایک ترتیب اور اصول سے چلتے ہیں جبکہ عیسوی سال میں کوئی ترتیب نہیں اور ایک طرف فروری اٹھائیس دن کا ہے تو دوسری طرف جون جولائی اور دسمبر جنوری ساتھ ساتھ اکتیس اکتیس کے مہینے۔ ہمارے حقیقی کیلنڈر یعنی ہجری شمسی میں پہلے چھ مہینے اکتیس کے، اگلے پانچ تیس کے جبکہ آخری مہینہ انتیس کو ہوتا ہے جو لیپ کے سال میں تیس کا ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک خوبصورت نظم اور ترتیب موجود ہے۔

جشنِ بہار محض ایک ایرانی جشن نہیں ہے بلکہ اکثر تہذیبوں میں بہار کا جشن کسی نہ کسی شکل میں منایا جاتا ہے مثلاً ہمارے پنجاب میں بسنت اور بیساکھی۔ پین اسلامسٹ تحریک اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں آج جب مسلمانوں اور انسانوں کی اتحاد کی بات ہورہی ہے تو کیوں نہ بہار کے سب جشن نوروز میں سمیٹ دئیے جائیں ؟

سلجوق اور عثمانی سلاطین ترک اور سنّی تھے، نوروز ان کا بہت بڑا اور اہم تہوار تھا۔ یہی معاملہ سلطنتِ دہلی اور سلطنتِ مغلیہ کا تھا۔ صفوی سلطنت کے اہل تشیع بھی یہ تہوار مناتے تھے ۔گویا یہ تہوار ہم مسلمانوں بالخصوص غیر عربی مسلمانوں کے اجتماعی تہذیبی ورثے کا بہت بڑا حصہ ہے جسے از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے اندر اپنی تہذیبی شخصیت اور اعتمادِ ذات کے احیاء میں مدد حاصل ہوسکے۔

نوروز مبارک

جشنِ بہاراں مبارک

ہجری شمسی سال 1400 مبارک

جانِ رحمت کی مدینہ طیبہ آمد مبارک

مسلم تمدن کی 1400 ویں سالگرہ مبارک

💝

احمد الیاس