آج جاوید غامدی صاحب کا ایک تازہ وڈیو کلپ ایک دوست کی وجہ سے دیکھنا پڑا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ غامدی صاحب نے میرے سوالات کا جواب دیا ہے۔ تقریباً آٹھ منٹ کے اس کلپ کو کئی دفعہ دیکھنے اور ان کی بات غور سے سننے پر ایک دفعہ پھر اس نتیجے کو تقویت ملی کہ وہ حد درجے سادگی پر مبنی موقف کو انتہائی قطعیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس دوران میں انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ ان کے بیان کا ایک حصہ دوسرے حصے کے ساتھ متناقض ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ borderline cases کا مفہوم سمجھنے میں بھی غلطی کرگئے ہیں۔
اس وڈیو کلپ کے مندرجات پر مزید تبصرے کے بجاے بہتر یہ معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل وصیت کے متعلق غامدی صاحب کے موقف پر جو تنقیدی مضمون لکھا تھا، وہی دوبارہ شیئر کروں۔ کیا عجب کہ انھیں اپنے وراثت و وصیت کے متعلق اپنے موقف کا تناقض معلوم ہو ہی جائے۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصیت کے متعلق غامدی صاحب کا موقف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصیت کے متعلق غامدی صاحب نے سورۃ البقرۃ اور سورۃ النساء کی تفسیر میں بھی بات کی ہے لیکن جس انداز میں اس پر اپنے موقف کی وضاحت انھوں نے “مقامات” میں کی ہے ، وہ خاصے کی چیز ہے۔ غامدی صاحب کے ڈسکورس کی تین خصوصیات ، جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں : قطعیت ، مبالغہ اور سادہ فکری ؛ وہ تینوں خصوصیات مقامات کے اس دو صفحات کے مضمون میں بہت واضح انداز میں سامنے آئی ہیں۔ اس لیے میں غامدی صاحب کے ڈسکورس کا تجزیہ کرنے والے دوستوں کو ضرور یہ تجویز کرتا ہوں کہ وہ یہ دو صفحات کا مضمون بغور پڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعیت کی آخری حد کے بعد بھی ظنیت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کی ابتدا میں غامدی صاحب فرماتے ہیں:
” تقسیم وراثت کا جو قانون قرآن میں بیان ہوا ہے، اُس میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ یہ تقسیم اُس وصیت کے بعد ہے جو مرنے والا کسی کے لیے کرتا ہے۔”
اب اس جملے کے ساتھ غامدی صاحب کا “قطعی الدلالہ” والا اصول ملا کر پڑھیے تو نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے تھا کہ جب قرآن نے بار بار قطعی الدلالہ الفاظ میں تاکید کردی کہ وراثت کی تقسیم مرنے والے کی وصیت کے بعد ہے ، تو اس پر کوئی سوال نہیں اٹھنا چاہیے تھا ، نہ ہی اس میں دو رائیں ہونی چاہیے تھیں۔
تاہم اس جملے کے فوراً بعد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ (اس بار بار کی تاکید کے بعد بھی ) اس پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں ۔
“اِس پر دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ وصیت کے لیے کوئی حد مقرر کی گئی ہے یا آدمی جس کے لیے جتنی چاہے وصیت کر سکتا ہے؟
دوسرا یہ کہ وصیت کیا اُن لوگوں کے حق میں بھی ہو سکتی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے میت کا وارث ٹھیرایا ہے؟”
کیا یہاں یہ سوال نہیں اٹھتا کہ قطعی الدلالہ قرآن کی بار بار تاکید کے بعد بھی یہ دو سوالات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ غامدی صاحب یہاں اس کیوں کا جواب نہیں دیتے لیکن ہم تین ممکن وجوہات ذکر کیے دیتے ہیں:
ایک یہ کہ وراثت کی آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ورثا کے حصے مقرر کردیے؛ چنانچہ اب اگر وصیت کے ذریعے کسی وارث کو مزید حصہ دیا گیا تو اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح اللہ کے مقررہ حصوں میں کمی بیشی نہیں ہوجاتی؟
دوسری یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں وارث کے حق میں وصیت سے روکا گیا اور یہ حدیث کو ، جو خواہ سند کے لحاظ سے متواتر نہ ہو ، امت نے ابتدا سے آج تک مسلسل قبولیت عطا کی ہے ۔
تیسری یہ کہ وارث کے حق میں نہ سہی لیکن اگر غیر وارث کے حق میں وصیت کی کھلی چھٹی دی جائے اور وارثوں کے لیے کچھ بچے ہی نہ ، تو پھر وراثت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو حصے مقرر کیے ہیں کیا وہ باطل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طرح قانونِ وراثت بے معنی نہیں ہوجاتا؟
ان تین اسباب کا مشترکہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجتہد کو صرف “من بعد وصیۃٍ” تک ہی نہیں ٹھہرنا چاہیے بلکہ دیگر نصوص ، اصول اور قواعد کو بھی مدنظر رکھنا اس پر لازم ہے ۔ اس کے بعد ہی وہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔ سوالات اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہاں صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے، جتنی غامدی صاحب کے بیان سے معلوم ہورہی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وصیت کے حق کی کوئی قانونی تحدید نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غامدی صاحب اپنے اٹھائے گئے پہلے سوال پر اپنا موقف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
” پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی تحدید کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علی الاطلاق فرمایا ہے کہ یہ تقسیم مرنے والے کی وصیت پوری کرنے کے بعد کی جائے گی۔ زبان و بیان کے کسی قاعدے کی رو سے اِس اطلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔”
حدیث میں مذکور تحدید کو غامدی صاحب بیک جنبشِ قلم یوں سائیڈ لائن کردیتے ہیں :
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو روایت اِس معاملے میں نقل ہوئی ہے، اُس کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔”
اس کے بعد حدیث کا مختصراً ذکر کرتے ہیں اور یوں کرتے ہیں کہ اگر گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو میں صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ انھوں نے ڈنڈی ماری ہے کیونکہ انھوں نے ایک قانونی اصول کو محض ایک اخلاقی مشورے میں ، اور وہ بھی ایک خاص شخص کے ایک خاص مسئلے میں ، تبدیل کرنا تھا ۔
بہرحال اس کے بعد اس حدیث کا تجزیہ کیے بغیر اور کسی دلیل کے بغیر یہ دعوی کرتے ہیں :
” ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ خاص صورت حال میں ایک خاص شخص کے فیصلے پر آپ کا تبصرہ ہے۔ اِس کا کسی قانونی تحدید سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
پہلے تو اس بغیر دلیل کے دعوے کی قطعیت پر داد دیجیے۔
“ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے”، یعنی اس میں دو رائیں ممکن نہیں !
“اس کا کسی قانونی تحدید سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔” قطعیت اور مبالغے کی آخری شکل!
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟
یہاں ایک تو اوپر بیان کیا گیا اصول یاد کیجیے کہ لفظ کی تحدید صرف “زبان و بیان کے کسی قاعدے” سے ہی نہیں ہوتی بلکہ دیگر نصوص، اصول اور قواعد سے بھی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ان دیگر اصول و قواعد میں سے ، جو دیگر نصوص میں ہی بیان ہوئے ہیں یا ان سے مستخرج کیے گئے ہیں، ایک اصول یہ ہے کہ انسان کی ملکیت اس کے مال پر اس کی زندگی تک رہتی ہے۔ موت کے ساتھ اس کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں اپنا مال اپنی مرضی سے کسی کو ہبہ کرسکتا ہے کیونکہ زندگی میں یہ مال اس کی ملکیت میں ہے۔
اس مسلمہ اصول کی روشنی میں لازماً یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان وصیت کے ذریعے اپنا مال کسی کو اپنی موت کے بعد کیسے منتقل کرسکتا ہےجبکہ اس کی موت کے بعد یہ مال اس کی ملکیت میں ہی نہیں رہتا ؟اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ شریعت نے دیگر نصوص میں صراحتاً وصیت کا حق دیا ہوا ہے ، اس لیے اس حق کو شریعت کے اس عام قاعدے سے استثنا کی حیثیت حاصل ہے۔
اب جب یہ معلوم ہوا کہ وصیت کا جواز بطور استثنا ثابت ہے ، نہ کہ بطور قاعدہ، تو اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے ، جو دنیا کے ہر قانونی نظام میں تسلیم کیا گیا ہے ، استثنا کو نص میں مذکور قیود کے اندر ہی قبول کیا جاسکتا ہے کیونکہ اگر قیاس کے ذریعے استثنا میں وسعت پیدا کی جائے تو وہ استثنا نہیں رہتا بلکہ قاعدہ بن جاتا ہے ۔ اسی بنا پر فقہاے کرام نے قرار دیا ہے کہ ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ وہ انتہائی حد ہے جس کی اجازت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وارث کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنے اٹھائے گئے دوسرے سوال کا کیا جواب دیتے ہیں؟
“دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ وارثوں کے حق میں خود اللہ تعالیٰ نے وصیت کر دی ہے۔ اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔”
الفاظ کی قطعیت سے یہاں تک قاری یہ اندازہ لگاتا ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔
اس کے بعد غامدی صاحب مزید قطعیت کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں :
” لہٰذا یہ بات تو بالکل قطعی ہے کہ اُن کے لیے کوئی وصیت بربناے رشتہ داری نہیں ہو سکتی۔”
پہلے “لہٰذا” کی دلالت پر غور کریں ۔
سوال تھا کہ کیا وارث کے حق میں وصیت ہوسکتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا ، “لہٰذا” ۔۔۔
ایک لمحہ مزید ٹھہر کر جملے کی قطعیت پر غور کریں :
“بالکل قطعی “
“کوئی وصیت۔۔۔ نہیں ہوسکتی۔”
اتنی قطعیت کے بعد کون جسارت کرسکتا ہے کہ کوئی استثنا نکال سکے؟
تاہم غامدی صاحب نے یہاں درمیان میں “بربناے رشتہ داری” کے الفاظ داخل کرکے قطعیت کی آخری حد کے بعد بھی استثنا کی گنجائش پیدا کردی ۔ چنانچہ اگلی سانس میں تصریح کرتے ہیں :
“مگر اِنھی وارثوں کی کوئی ضرورت یا اِن میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اِسی نوعیت کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو وصیت یقیناًہو سکتی ہے۔”
اس استثنا پر ابھی بات کریں گے لیکن ایک دفعہ پھر یہاں اسلوب کی قطعیت اور تعمیم پر غور کریں :
“انھی وارثوں”
“کسی کی کوئی خدمت”
“اسی نوعیت کی کوئی دوسری چیز”
“تو وصیت یقیناً ہوسکتی ہے۔”
غامدی صاحب نے آگے “کسی کی خدمت یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری چیز “کی چند مثالیں ان الفاظ میں ذکر کی ہیں:
“چنانچہ کسی کا کوئی بچہ اگر زیر تعلیم ہے، دوسرے بچے برسرروزگار ہیں اور وہ ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا یا بچوں میں سے کسی نے والدین کی زیادہ خدمت کی ہے یا کسی کو اپنی بیوی کے معاملے میں اندیشہ ہے کہ اُس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اُس کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا تو وہ اِن کے حق میں وصیت کر سکتا ہے۔”
سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کےلیے زندگی میں ہی کیوں نہ بندوبست کیا جائے اور موت کے بعد تک اسے کیوں مؤخر کیا جائے؟ یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہاں غامدی صاحب نے اتنی قطعیت اور تعمیم کے ساتھ جو دعوی کیا ہے اس کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی کہ وہ کس بنیاد پر یہ دعوی کررہے ہیں؟ بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر مزید قطعیت اور مبالغے کے ساتھ کہتے ہیں :
“یہ وصیت جس طرح دوست احباب کے لیے ہو سکتی ہے، صدقہ و خیرات کی غرض سے ہو سکتی ہے، اِسی طرح اِن وارثوں کے حق میں بھی ہو سکتی ہے۔ اِس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔”
یہاں پھر قطعیت اور مبالغے پر توجہ کریں :
“اسی طرح”
“اس میں کوئی چیز مانع نہیں۔”
بہرحال اگرچہ یہاں انھوں نے دلیل الفاظ میں ذکر نہیں کی لیکن تجزیہ کریں کہ وراثت کے احکام اور شریعت کے دیگر قواعد کی موجودگی میں آخر وہ یہ دعوی کیسے کرسکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفروضہ یہ ہے کہ وارث کے حق میں وصیت اصلاً جائز ہے اور صرف اس صورت میں ناجائز ہوجاتی ہے جب یہ “بربناے رشتہ داری” ہو۔ سوال یہ ہے کہ وصیت کے ناجائز ہونے کےلیے “بربناے رشتہ داری” کی قید کہاں سے آئی ہے؟ اگر آیاتِ مواریث کے نزول کے بعد انسان کی وصیت کی جگہ اللہ کی وصیت نے لی ہے تو پھر وارث “بربناے محبت، حاجت یا عوض “وصیت کے جواز کی دلیل کیا ہے؟
یہ بھی واضح رہے کہ یہاں ان کا یہ دعوی خود ان کے اپنے اس دعوے کے ساتھ متناقض ہے جو شروع میں انھوں نے ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے الفاظ یہاں دوبارہ نقل کیے دیتے ہیں:
“وارثوں کے حق میں خود اللہ تعالیٰ نے وصیت کر دی ہے۔ اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔”
وارث کے حق میں وصیت چاہے بربناے راشتہ داری ہو یا کسی اور وجہ سے، اس کے نتیجے میں اللہ کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی ہوجاتی ہے اور غامدی صاحب “میزان” میں فرماتے ہیں:
“یہ حصے بالکل متعین ہیں اور اِن میں کمی بیشی کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔”
دوست ایک دفعہ پھر قطعیت کی داد دیں :
“بالکل متعین”
“کمی بیشی کےلیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔”
کیا غامدی صاحب یہاں بھی “اصلاً” یہ فرمارہے ہیں کہ ان “بالکل متعین” حصوں میں صرف “بربناے رشتہ داری” ہی “کمی بیشی کےلیے کوئی گنجایش نہیں ہے”، ورنہ “اِنھی وارثوں کی کوئی ضرورت یا اِن میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اِسی نوعیت کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے ” تو پھر ان حصوں میں کمی بیشی کی گنجایش پیدا ہوجاتی ہے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق