عرفان شہزاد
۔۔۔
حِجـــــاز کو اللّٰه تعالیٰ نے توحید کا مرکز بنا کر مقدّس کیا، کعبہ خدائے واحد کے گھر اور قبلے کے حیثیت سے تعمیر ہوا. وہاں جب شِرک نے قبضہ کر لیا تو یہ قبضہ واگُزار کرایا گیا اور مشرکانہ عبادت گاہوں اور آثار کو مِٹا ڈالا گیا. حجـاز کی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں کوئی مشرکانہ عبادت گاہ قائم رہ سکتی ہے اور نہ تعمیر کی جا سکتی ہے، اس کی خصوصی حیثیت ہے، ایسے ہی جیسے کعبہ کی بیت اللّٰه کی خصوصی حیثیت ہے. نہ کعبہ کہیں اور تعمیر ہو سکتا ہے، نہ حجاز کا تقدُّس کسی اور زمین کو دیا گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے حجـــــاز سے باہر کسی بت خانہ، کسی آتش کدہ کو نہیں گرایا اور نہ نئی تعمیر ہونے والی غیر مسلم عبادت گاہوں کو روکا. البتہ جن عــــلاقوں کو انھوں نے فتح کیا اور اپنے نئے شہر بسائے، ان کے مالکانہ حقوق کی بنـا پر یہ دُرُست موقف اختیار کیا گیا کہ وہاں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ بنانے کا حق نہیں.
دورِ حـــــاضر میں بین الاقوامی سطح پر اقوام کی ایک نئی تقسیم وجود میں آئی. جنگ کےذریعے سے مَمـــالک فتح کرنے کی صدیوں پرانی طـــــاقت کی روایت کو قانون کی بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی گئی اور طَے پایا کہ جس قوم کے لیے جو سرحــــدیں مقرر کر دی جائیں، کوئی دوسری قوم اس پر قبضہ نہیں کر سکتی. (اس تقسیم میں جہاں جہاں تنازعات رہ گئے، ان میں سے کئی حل ہو چکے اور کئی ابھی تک محلّ نزاع ہیں). یہ قومی ریاستیں کہلائیں جن کا ایک بنیـــــادی اصول یہ ہے کہ ایک خاص جغرافیہ میں رہنے والے بلا امتیازِ مذہب و نسل برابر کے شہری ہیں.
اس لحاظ سے قومی ریاست ہماری فقہ کے لیے ایک نیامظہر ہے. پہلے وقتوں میں جو ممالک مسلمـــان فتح کرتے، ان میں غیر مسلم محکوم سمجھے جاتے تھے. وہ جو جِزیہ اور خراج ادا کرتے تھے، وہ مسلمـــانوں کی ملکیت قرار پاتا تھا. قومی ریاستوں میں یہ حیثیت بدل گئی. چنـــانچہ جس طرح ایک غیر مسلم اکثریت میں رہنے والے مسلمــــان اپنے ہم قوم غیر مسلموں کے ساتھ برابر کے حقوق کے حق دار قرار پائے. اسی طرح مسلم اکثریت میں رہنے والے غیر مسلم، اپنے ہم قوم مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شہری قرار پائے. ان کے حقوق و فرائض میں کوئی فــرق نہیں. سب پر یکساں طور پر ٹیکس کا نفاذ کیا جاتا اور بطور شہری انکی شہری ضروریات پوری کی جاتی ہیں.
چنانچہ کوئی قومی ریاست آئینی طور پر مسلــم ریـاست نہیں بن جاتی کہ وہاں مسلمـــــانوں کی اکثریت ہے؛ جیسے کوئی ریاست آئینی طــــور پر مسیحی یا ہندو ریاست نہیں بن جاتی، اگر وہاں مسیحیوں یا ہندوؤں کی اکثـــــریت ہو. جہاں تک پاکستـــــان کا تعلق ہے تو یہ درست ہے کہ سیاسی تحریک کے دوران میں اسلام کا نعرہ استعمـــــال کیا گیا تھا لیکن ملک کی تشکیــــل قومی ریاست کے اصول پر ہی ہوئی تھی، جس میں مسلم و غیر مسلم برابر کے شہری قرار دیے گئے تھے. یہی وجہ ہے کہ مسلم لیــــگ نے جو ووٹ پاکستان کے نام پر لیا؛ اس میں غیر مسلم کا ووٹ، مسلمـــان کے برابر تھا. مسیحیوں نے اسی اصول پر مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا.
پاکستان کا قومی خِزانہ صرف مسلمانوں کے پیسے سے جمع نہیں ہوتا،اس میں غیر مسلم کا ٹیکس بھی برابری کے اصول پر شامل ہے نہ کہ جــــزیہ یا خـــــراج کے نام پر محکومی کا ٹیکس. ٹیکس کی یہ رقـــــم حاکــــم کی ملکیت نہیں، عوام کی ملکیت ہے اور حاکم اسکا مینیجر ہے.وہ اس میں مالکانہ تصرف نہیں کر سکتا.
اسلام آباد سمیت کوئی شہر بھی اس وجہ سے مسلمانوں کا تعمیر کردہ شہر نہیں کہلائے گا کہ اس وقت اسکی منظوری دینے والا مسلمان تھا. وہ ایک قومی ریاست کا ســـربـراہ تھا اورجو پیسہ خرچ ہوا وہ قومی خزانے کا پیسہ تھا جس میں بلا امتیاز سب کے ٹیکسوں کا پیسہ جمع تھا.
اسی وجہ سے وزارتِ مذہبی امور صرف مسلم اُمور کو نہیں دیکھتی، سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں کے بارے میں ایک ہی اصول پر عمل پیرا رہنے کی پابند ہے.
ان بنیادوں پر قانونی پوزیشن یہ ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کو اپنی عبـــادت گاہ بنانے کا حق آئینی طور پر حاصـــل ہے. اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں کیا جا سکتی. ضرورت اور جواز کے ثُبوت پر مسجـــد، منـــدر اور گرودوارہ سمیت کسی بھی دوسری عبــــادت گاہ کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے. جب تک قومی ریاست کا اصـــول آئینی طور پر تسلیم شـــدہ ہے، غیــــر مسلم عبـــــادت گاہوں کے بارے میں اصولی پوزیشن یہی رہے گی. کعبہ اور حجاز کی تقدیس کے خصوصی احکام کا اطلاق بیرونِ حجاز نہ پہلے کبھی کیا گیا اور نہ اب کیا جا سکتا ہے.
آئیـــن میں صـــدر اور وزیر اعظم کے مسلم ہونے کی شرط اکثریت نے منظور کر لی ہے. اس استثنــا کے علاوہ اور کوئی استثنا آئین میں مذکور نہیں. اس لیے مزید استثنا پیدا کرنے کا بھی جواز نہیں.
یہ سب کنفیوژن پاکستان کے بارے میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے تصور کو قومی ریاست کے تصور سے گڈ مڈ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے. آئینی طور پر پاکستـــــان تمام تر اسلامائزیشن کےباوجوداب تک ایک قومی ریاست ہےجس پر نہ حجـــــاز کے خصوصی احکام لاگو ہوتے ہیں اور نہ گزشتہ دور کے استبدادی ریاستوں کے فقہی احکام.
جو علماء قومی ریاست کے اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے، انھیں پہلے اس آئینی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی، اس کے بغیــــر مندر یا گرودوارے کی تعمیــــر اور سہولت کاری پر حرمت کے فتوے بے محل رہیں گے.