25 فروری 2020
کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ کسی بھی شخصیت سے ہماری محبت اور عقیدت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے جب تک ہم کوئی ایک آدھ کرامت ان کی شخصیت سے وابستہ نہ کر لیں۔ کیا روحانی کرامت کے بغیر کوئی شخص ناممکن یا عظیم ترین کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا؟ کسی بھی کارِ خیر یا عظیم کارنامے کیلئے تائیدِ الٰہی کے حصول کا ثبوت یا مطلب کرامت ہی نہیں؟ ناممکن کو ممکن بنانا بذاتِ خود کرامت ہوتی ہے۔ مجھے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے اس حوالے سے کئی کرامات قائداعظم کی ذات سے بھی وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں روحانی تجربات اور نبی کریمﷺ کی خوابی زیارت پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہوں لیکن اس کا ’’سورس‘‘ کوئی مصدقہ ہونا چاہئے ورنہ ہوائی شواہد بےادبی اور گناہ کی حدود میں قدم رکھنے کے مترادف ہیں۔
آج صبح ایک دیرینہ مہربان اور ریٹائرڈ پروفیسر آف انگلش نے واٹس ایپ پہ پوسٹ بھجوائی ہے جسکے مطابق ’’مولانا شبیر احمد عثمانی سے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھانے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب قائداعظم کا انتقال ہوا تو میں نے رات خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت کی۔ آپﷺ کے ساتھ قائداعظم کھڑے تھے۔ آپﷺ قائداعظم کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے‘‘۔ بظاہر مجھے یہ روایت بےبنیاد لگی۔ میں نے ادھر ادھر سے تصدیق چاہی لیکن اس کا کوئی مصدقہ حوالہ نہیں ملتا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نہایت عالم و فاضل اور نیک انسان تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں قابلِ رشک خدمات سرانجام دیں۔ اگر انہوں نے ایسا خواب دیکھا ہوتا تو وہ کہیں لکھ جاتے یا مصدقہ راویوں کو بتا دیتے۔ قائداعظم کی وفات پر ان کا خراج تحسین کہ قائداعظم اورنگزیب کے بعد ہماری تاریخ کے سب سے بڑے حکمران تھے، ان کی عقیدت کی غمازی کرتا ہے۔ اگر کسی صاحب کے پاس اس روایت کا کوئی مصدقہ ثبوت ہو تو براہِ کرم میری معلومات میں اضافہ کریں۔ اس طرح یہ واقعہ بھی بغیر کسی مصدقہ شواہد کے بار بار لکھا گیا ہے کہ 1934میں قائداعظم کی ہندوستان واپسی ایک خواب کا نتیجہ تھی جس میں قائداعظم کو نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپؐ نے جناح کو ہندوستان واپسی کا حکم دیا۔ کوشش کے باوجود میں اس واقعے کی تصدیق نہیں کر سکا سوائے ایک راوی کے جن کا بیان ماہنامہ نظریہ پاکستان اسلام آباد میں چھپا تھا۔ ان کا ’’سورس‘‘ بھی علامہ شبیر احمد عثمانی تھے لیکن علامہ عثمانی کے حوالے سے براہِ راست اس کی تصدیق نہیں ملتی۔ روایت کے مطابق یہ واقعہ قائداعظم نے خود مولانا عثمانی مرحوم کو اعتماد میں لیکر بتایا تھا اور اپنی زندگی میں اسے راز رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ اگر یہ روایت درست ہے تو قائداعظم کے انتقال کے بعد مولانا عثمانی اتنے بڑے واقعے کو تحریری یا زبانی بیان کر سکتے تھے۔ اگر کسی صاحب کے پاس کوئی ثبوت ہو تو براہِ کرم مجھ پہ احسان فرمائیں لیکن ’’سیکنڈری سورس‘‘ نہیں ’’ اوریجنل سورس‘‘ کا حوالہ دیں۔
یاد آیا کہ میں بارہا یہ واقعہ پڑھ چکا ہوں حتیٰ کہ کئی کتابوں میں درج ہے کہ جب قائداعظم فروری 1948ءمیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک وزیراعظم لیاقت علی خان تشریف نہیں لائے اور ان کی کرسی خالی پڑی تھی۔ چنانچہ انہوں نے پابندیٔ وقت کا پیغام دینے کیلئے وزیراعظم کی کرسی اٹھوا دی۔ وزیراعظم چند منٹ تاخیر سے پہنچے اور تقریب کے اختتام تک عام شرکاء کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس واقعے کو اتنی بار دہرایا گیا کہ میں نے بھی اسے سچ مان لیا اور لکھ دیا۔ بعد ازاں اس کی تصدیق کیلئے اخبارات دیکھے کہ اتنی اہم خبر ’’مِس‘‘ نہیں ہو سکتی لیکن کہیں نام ونشان نہ ملا۔ تحقیق کرتے کرتے کراچی کے بزرگ محقق ڈاکٹر رضا کاظمی تک پہنچا جنہوں نے لیاقت علی خان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے اعتماد سے اس واقعے کی تردید کی اور انکشاف کیا کہ قائداعظم بہت کمزور ہو چکے تھے۔ اس تقریب کے دوران لیاقت علی خان کو ایک مرحلے پر محسوس ہوا کہ کہیں گورنر جنرل تقریر کے دوران گر نہ جائیں۔ چنانچہ وہ سہارا دینے کیلئے الرٹ اور مستعد رہے۔ قائداعظم کے پہلے سرکاری مورخ ہیکٹر بلقونے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے جو اس کی دوسری کتاب میں موجود ہے۔
بہت سال پہلے تحریک پاکستان کے ایک معتبر لکھاری نے مجھ سے قطعی لہجے میں اس واقعے کا ذکر کیا تھا کہ جب قائداعظم پندرہ اگست 1947ءکو پاکستان کی پہلی تقریبِ پرچم کشائی میں تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی کو بھی لے گئے اور انہوں نے پہلی پرچم کشائی مولانا عثمانی سے کروائی۔ قائداعظم کے حکم پر ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں پہلی سرکاری پرچم کشائی مولانا ظفر عثمانی نے کی جو مولانا اشرف تھانوی کے خواہر زادے تھے۔ میں کئی کتابوں میں بھی اس واقعے کو پڑھ چکا ہوں اس کی تصدیق کیلئے اخبارات کھنگالے اور قائداعظم پیپرز اسلام آباد سے رابطہ قائم کیا تو پتا چلا کہ یہ بھی ایک تاریخی افسانہ ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اتنا بڑا واقعہ اخبارات میں شائع نہ ہوتا۔
تجربہ شاہد ہے کہ اگر ایک بار کوئی تاریخی افسانہ گھڑ لیا جائے تو اس کا اثر زائل کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ قائداعظم نے جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا قومی ترانہ لکھوایا لیکن یار لوگ اسے تواتر سے لکھتے چلے آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک عالم و فاضل سینئر کالم نگار اور ثقہ صحافی نے لکھا کہ لیاقت علی خان روس کا دعوت نامہ ٹھکرا کر امریکہ چلے گئے۔ وزارتِ خارجہ کے سرکاری ریکارڈ سے یہ بات ثابت اور طے شدہ ہے کہ روس نے خود یہ دعوت نامہ واپس لے لیا تھا۔ لیاقت علی خان روس جانا چاہتے تھے لیکن روسی حکومت نے سرد مہری اختیار کر لی۔ اس کے بعد لیاقت علی خان امریکہ گئے۔ میری التجا ہے کہ تحقیق کی عادت ڈالیں اور ہر سنی سنائی کو سچ نہ مان لیا کریں