کانگریس کاشو بوائے

1946 کے الیکشن کے بعد جب مولانا آزاد پنجاب میں کانگریس اور یونینسٹ کی مشترکہ وزارت بنوانے اور تقسیم پنجاب کے حق میں رائے ہموار کرنے آئے تھے تو قائداعظم پر کچھ الزام بھی لگائے۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے ایک تقریر کی جس کا آخری حصہ قابل قدر ہے۔ قائداعظم نے کہا

“مولانا آزاد نے جس مشغولیت اور خلوص سے کانگریس کی خدمت کی ہے۔ اگر اس سے آدھے خلوص اور جوش کے ساتھ خدا کی اطاعت کرتے تو آج معاشرے میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہوتا۔ ایک مسلم علامہ کانگریس کا صدر، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ مگر اب تو بیرونی ممالک بھی حقیقت حال سے واقف ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب مولانا کو چاہیے کہ وہ بقیہ چند سال امن و سکون سے یاد خدا میں گزاریں اور کانگریس کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔”

تاہم مولانا عادت سے مجبور تھے لہذا باز نہ آئے۔ تقسیم کے بعد پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی ضرورت تھی۔ لیکن اس موقع پر مولانا آزاد نے ہی مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر مشورہ دیا کہ اپنی سیاسی جماعتیں چھوڑ کر مرکزی سیاسی دھارے میں آجائیں۔ وہ دن اور آج کا دن، مسلمانان ہند کا نہ کوئی اپنا سیاسی دھارا رہا نہ “مرکزی قومی دھارے” میں انہیں کوئی جگہہ ملی۔ وہ پارلیمان میں ہمیشہ آبادی کے تناسب سے چار گنا کم ہی رہے اور کابینہ میں تقریباً غائب۔ صرف کیرالا کے مسلمانوں نے اپنے قائد محمد اسماعیل کے کہنے پر مسلم لیگ تحلیل نہ کی اور آج وہ پورے ہندوستان سب سے محفوظ اور سیاسی طور پر طاقتور مسلم کمیونٹی ہیں۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنے وزرائے اعلیٰ تک بنواچکے ہیں اور کیرالا میں مسلم لیگ کنگ میکر سمجھی جاتی ہے۔

اس حوالے سے الزام چودھری خلیق الزماں اور حسین شہید سہروردی پر بھی آتا ہے جنہیں قائد اعظم نے حکم دیا تھا کہ ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کی قیادت کریں اور مسلم لیگ سنبھالیں۔ یہ دونوں حضرات شراکت اقتدار کے لیے پاکستان چلے آئے۔ پیچھے بچے پورے شمالی ہند میں صرف حسرت موہانی جوضیعف ہوچکے تھے اور ۱۹۵۱ میں انتقال کرگئے۔ یوں کیرالا کے سوا باقی مسلم ہند میں قیادت کا وہ فقدان پیدا ہوا جو آج تک نظر آتا ہے۔ اس بحران میں مسلمانان ہند کو صرف آزاد جیسے ناپسندیدہ شخص کے پاس ہی پناہ نظر آئی۔ اگر محمد اسماعیل اور حسرت موہانی کے سوا مسلم لیگ کے سب زعماء وزارتوں کے چکر میں بھاگے نہ آتے تو آزاد کی تقسیم کے بعد کے بھارت میں بھی کوئی حیثئیت نہیں ہوتی اور نہ ہندی مسلمانوں میں وہ سیاسی گمراہیاں پیدا ہوتیں جو ہوئیں۔

احمد الیاس